سندھ کے علاقے رانی پور میں کمسن گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد اور پھر اس کے جاں بحق ہوجانے پر پولیس نے اس واقعے میں نامزد مرکزی ملزم، علاقہ ایس ایچ او اور بچی کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کو حراست میں لے لیا ہے۔ ایس ایچ او رانی پور پر الزام ہے کہ انہوں نے فرائض میں لاپرواہی اور غفلت کا مظاہرہ کیا۔ جبکہ مرکزی ملزم کو سلاخوں کے پیچھے کم سن بچی کی والدہ کی مدعیت میں درخ ایف آئی آر کی بنا پر کیا گیا۔ بچی کی موت کی وجوہ جاننے کے لیے عدالت میں قبر کشائی اور میت کا پوسٹ مارٹم کرنے کی درخواست دی جائے گی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ 10 برس کی بچی پیر گھرانے کی حویلی میں بطور ملازمہ کام کررہی تھی جس کے والدین کو 2 دن پہلے فون پر اطلاع دی گئی کہ ان کی بیٹی پیٹ میں درد کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارگئی۔ بچی کے والدین کا تعلق نوشہرو فیروز سےتھا جنہوں نے بدھ کو بیٹی کی تدفین بھی کردی۔ اس عرصے میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ایک بچی کے جسم اور سر پر تشدد اور زخموں کے واضح نشان تھے۔ دعویٰ کیا گیا کہ متعلقہ بچی وہی ہے جو دو دن پہلے جاں بحق ہوئی تھی۔
اسی بنا پر بچی کی والدہ نے ایف آئی آر درج کرائی جس کی روشنی میں ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ معلوم ہوا ہے کہ بچی 9 ماہ سے حویلی میں ملازم تھی۔ والدہ نے الزام لگایا ہے کہ ملزم اور اس کی بیوی ان کی بیٹی پر بہت ظلم کرتے تھے، معمولی معمولی باتوں پر تشدد کا نشانہ بناتے۔ والدین نے مالکان سے مل کر بچی پر رحم کرنے کی التجا کی۔ اس دوران 14 اگست کو انہیں حویلی سے فون آیا کہ ان کی بیٹی ناسازی طبعیت کے باعث چل بسی۔ ایف آئی آر کے مطابق والدہ نے ملزم پیر سے بچی کی موت سے متعلق دریافت کیا تو وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دے سکے۔ بچی کی میت کو گاؤں لا کر اس کی تدفین کردی۔ والدہ کا دعویٰ ہے کہ بچی کی پیٹھ، گردن اور پسلیوں پر تشدد کے نشانات تھے اور شبہ ہے کہ بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا۔
Discussion about this post