سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنا دیا۔ جس کے مطابق عدالت کے سامنے ابتدائی طور پر دو سوالات تھے، پہلاسوال یہ تھا کیا کوئی مقدمہ جس پر جزوی سماعت ہوچکی ہو بینچ سے واپس لیا جاسکتا ہے؟ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ایسا مقدمہ واپس یا ڈی لسٹ نہیں کیا جاسکتا۔دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا انتظامی آرڈر سے عدالتی آرڈر کو ختم کیا جاسکتا ہے؟ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انتظامی آرڈر سے جوڈیشل آرڈر کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نے جان بوجھ کر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کی، ایسا ثبوت نہیں ملا جس سے ظاہر ہو کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا مقدمے سے کوئی ذاتی مفاد ہے، ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کی جانب سے بدنیتی کا ثبوت نہیں ملا، ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کے خلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ رجسٹرار آفس کو حکم دیا جاتا ہے کہ ججز اختیارات سے متعلق مقدمہ واپس 3 رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔توہین عدالت کیس کا 20 صفحات پر مشتمل تحریری حکمنامہ بھی جاری کردیا گیا۔ واضح رہے کہ ہفتے کو توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے ججز کمیٹی کو خط لکھ کر انٹراکورٹ اپیل کے بینچ پر اعتراض کیا تھا۔
Discussion about this post