عدالت عظمیٰ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ اس موقع پرچیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سزائے موت کا موجودہ کیس سے تعلق نہیں، اگر مارشل لا جیسی صورتِ حال ہوئی تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی۔ عدالت عظمیٰ نے درخواست گزاران کی حکمِ امتناع کی درخواست مسترد کر دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ٹرائل ہی شروع نہیں ہوا تو کیسے حکم امتناع دے دیں ؟ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے ملٹری ٹرائل کا طریقہ کار عدالت کو بتایا۔ یاد رہے کہ اس مقدمے کی سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ کررہاہے۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ی سماعت پر 9 مئی کے منصوبہ بندی سے کیے گئے حملوں کی تفصیلات سامنے رکھیں، تصاویری شواہد سے ثابت ہے کہ حملے میں ملوث تمام افراد کے چہرے واضح تھے، صرف 102 افراد کو بہت محتاط طریقے سے گرفتار کیا گیا، دوبارہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ جو 9 مئی کو ہوا ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ ٹرائل کیسے ہو گا یہ طریقہ کار عدالت کے سامنے ہے، ملٹری کورٹس میں سب سے پہلے وقوعہ کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے، وقوعہ کی رپورٹ کی روشنی میں کمانڈنگ افسر کورٹ آف انکوائری میں واقعے کی مکمل تفتیش کرتا ہے، تفتیش کے بعد سویلینز کو آرمی ایکٹ کے سیکشن 73 اور 76 کے تحت گرفتار کیا جا سکتا ہے، شواہد کی سمری کی ریکارڈنگ کے دوران ملزم کو جرح کا اختیار دیا جاتا ہے، جرح کے بعد آرمی ایکٹ کے رول 19 کے تحت چارج فریم کیا جاتا ہے، ملٹری ٹرائل کرنے کے لیے 3 افسران کا پینل بیٹھتا ہے، ملزمان کو تمام شواہد اور گواہان پر جرح کرنے کا مکمل حق دیا جاتا ہے۔
Discussion about this post