جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اور قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی 3 رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ قائم مقام چیف جسٹس پاکستان سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ وزیرِ خارجہ نے بانیٔ پی ٹی آئی کو پھنسا دیا، شاہ محمود خود بچ گئے اور بانی پی ٹی آئی کو کہا کہ سائفر پڑھ دو۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو فرد جرم چیلنج کی تھی وہ ہائی کورٹ ختم کرچکی ہے۔نئی فرد جرم پر پرانی کارروائی کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اس موقع پر ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر نوٹس نہیں ہوا جس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی نوٹس کردیتے ہیں آپ کو کیا جلدی ہے۔ سابق چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل نےموقف اختیار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے جلد بازی میں 13 گواہان کے بیانات ریکارڈ کرلیے ہیں۔ جسٹس اطہر من نے کہا کہ الزام یہ ہے کہ سائفر حساس دستاویز تھا جسے عوامی سطح پر شیئر کیا گیا۔ سائفر حساس کوڈڈ دستاویزتھا۔ دفتر خارجہ کوڈڈ سائفر وزیر اعظم کو کیسے دے سکتا تھا۔اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ وزیراعظم کے پاس موجود دستاویز سائفر نہیں تھی۔اصل سائفر تو آج بھی دفتر خارجہ میں ہی ہوگا۔ کیا تفتیشی افسر نے اعظم خان کی گمشدگی پر تحقیقات کیں۔ دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کر لی۔ بانی پی ٹی آئی کو توشہ خانہ کیس میں 5 اگست جبکہ سائفر کیس میں 15 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا۔13 دسمبر 2023 کو خصوصی عدالت نے آفیشل سیکرٹ کے تحت سابق وزیراعظم اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں ایک بار پھر فرد جرم عائد کی تھی۔ اس سے قبل دونوں پر 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 21 نومبر کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے قانونی تقاضوں کے ساتھ ازسرنو ٹرائل کا حکم دیا تھا جس کے بعد اڈیالہ جیل میں ٹرائل کا نوٹیکفیشن جاری ہوا۔
Discussion about this post