فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں3 رکنی بنچ نے کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ سمجھ نہیں پا رہے کس لیول کے ذہن نے یہ رپورٹ تیار کی ہے، کمیشن کو معلوم ہی نہیں ان کی ذمہ داری کیا تھی، انکوائری کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی، دھرنے سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا، کسی کو پروا ہی نہیں، آگ لگاؤ، مارو یہ اب کچھ لوگوں کا حق بن گیا ہے، پاکستان بنا تھا بتائیں کہیں کسی نے آگ لگائی تھی؟ یہاں ہر جگہ بس آگ لگا دو والی بات ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کمیشن کہہ رہا ہے قانون ہیں ان پر عمل کرلیں، بہت شکریہ، یہ کہنے کیلئے کیا ہمیں کمیشن بنانے کی ضرورت تھی؟ اگر 2019 والے فیصلے پر عمل کرتے تو 9 مئی کا واقعہ بھی شاید نہ ہوتا۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنرل ر فیض حمید نے کمیشن کو بتایا کہ مالی معاونت کے معاملات دیکھنا آئی ایس آئی کی ذمہ داری نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلحہ لانے والوں کی نیت تو واضح تھی کہ وہ پُرامن مظاہرین نہیں تھے۔ جسٹس عرفان سعادت نے کہاکہ ناشتہ اور کھانے پہنچانے والوں کے تو بیان ریکارڈ ہوئے مگر ٹی ایل پی کے نہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کھانا کھلانا تو کوئی جرم نہیں ہے۔
Discussion about this post