سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ یاد رہے کہ ٹرائل کورٹ نے شاہ رخ جتوئی کو سزائے موت دی تھی۔ جبکہ ملزم نواب سجاد اور غلام مرتضیٰ کو عمرقید کی سزا ملی تھی۔ اسی طرح نواب سراج تالپور کو سزائے موت دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ بدل کر چاروں ملزمان کو عمر قید کی سزا حکم دیا جس کے خلاف ملزمان نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی تھیں۔ عدالت عظمیٰ میں ملزمان کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ قتل کے واقعے کو دہشت گردی کہہ کر پیش کیا گیا۔ ان کے موکلوں کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ اس موقع پر انہوں نے فریقین کی جانب سے صلح نامہ بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔ جس کو دیکھتے ہوئے عدالت نے تمام مجرموں کو بری کرنے کا حکم دیا۔
شاہ زیب کا قتل کب اور کیسے ہوا؟
کوئی 10 سال پہلے 25 دسمبر کو معمولی سے تنازعے پر نوجوان شاہ زیب زندگی کی بازی ہار گیا۔ مقتول کے والدین کے مطابق شاہ رخ جتوئی نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان کے بیٹے کی جان لی۔ عینی شاہدین کے مطابق شاہ رخ جتوئی کے ملازم غلام مرتضیٰ نے شاہ زیب کی بہن سے چھیڑ خانی کی جس پر منع کیا گیا تو شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے شاہ زیب پر فائرنگ کرکے موت کی نیند سلادیا گیا۔ واقعے کے بعد شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہوگیا۔ جسے وہاں سے گرفتار کرکے پاکستان لایا گیا۔ کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 7 جون 2013 کو جرم ثابت ہونے پر شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ کچھ برس بعد جب اُس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے لانڈھی جیل کو شاہ رخ جتوئی کو دستیاب سہولیات دیکھیں تو جیل سپرنٹنڈنٹ معطل کر دیا تھا۔ جس کے بعد شاہ رخ جتوئی کو ڈیتھ سیل منتقل کرنے کا حکم دیا گیا۔ 2019 میں سندھ ہائی کورٹ نے شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی دائر بریت کی اپیل رد کردی تھی جسے بعد میں سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا۔ 2017 میں شاہ زیب خان کے والدین نے قصاص اور دیت کے قانون کے تحت صلح نامے کے بعد شاہ رخ جتوئی کو معاف کر دیا تھا جس کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔ مقتول شاہ زیب خان کے والد ڈی ایس پی اورنگزیب خان اور والدہ عنبرین اورنگزیب نے عدالت میں ایک حلف نامہ پیش کیا تھا، جس میں انھوں نے ملزمان کو معاف کرنے کا کہا تھا۔ جبکہ یہ خاندان بیرون ملک نیوزی لینڈ منقل ہوگیا تھا۔ 4
سال پہلے شاہ زیب کے والد اورنگزیب خان نیوزی لینڈ میں چل بسے تھے۔ فروری 2018 میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے بعد اس مقدمے میں ملوث چاروں مجرمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا۔
وکٹری کا نشان
شاہ رخ جتوئی کی 2018 میں جب عدالت سے رہا کیا گیا تو ان کے وکٹری کے نشان بنانے پر خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جس پر شاہ رخ جتوئی کا کہنا تھاکہ انہوں نے نادانی میں یہ عمل کیا تھا جس پر وہ شرمندہ ہیں۔ بہرحال اب جب شاہ رخ جتوئی کا سپریم کورٹ سے بریت کا پروانہ مل گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک بڑا حلقہ اس فیصلے کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے ۔
Discussion about this post