سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف توہین عدالت درخواست پر سماعت ہوئی۔ اس موقع پر وزارت داخلہ کے وکیل سلمان بٹ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے سربراہ نے 24 مئی سے ہی ڈی چوک پہنچنے کی کال دی تھی۔ عمران خان عدالتی حکم سے واقف تھے اور یہی بات ریکارڈ سے ثاہت ہوتی ہے۔ عمران خان نے جواب میں غلط بیانی کی۔ انہوں نے کہا کہ اُن کے اور پھر وزیراعلیٰ کے جیمرز حائل ہوئے۔ اس موقع پر جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کوئی ٹرائل کورٹ نہیں جو شہادتیں ریکارڈ کرے۔حکومتی درخواست پہلے ہی غیر موثرہے۔ اب یہ عدالت چاہے گی تو کارروائی کرے گی۔ کوئی ایک عدالتی فیصلہ بتادیں جس میں غیرموثر کیس میں توہین عدالت کی کارروائی ہوئی ہو۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ 25 مئی والا کیس تو سپریم کورٹ نے نمٹا دیا تھا، موجودہ درخواست 25 مئی والے حکم کا تسلسل کیسے ہو سکتی ہے؟ سپریم کورٹ نے کیس غیرموثر ہونے پر ختم کیا تھا، حکومت کیسے متاثرہ فریق ہے جو توہین عدالت کی کارروائی شروع کرائے؟ چیف جسٹس کے مطابق عدالت کے پاس مواد ہےاور عمران خان کا موقف بھی۔ جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ انہیں عدالتی حکم کا علم نہیں تھا۔ اب یہ عدالت نے دیکھنا ہے کہ کن حالات میں کیا ہوا ؟ 25 مئی کو حالات خراب تھے، مظاہرین کسی کے قابو میں نہیں تھے، لارجر بنچ نے جب سماعت شروع کی تو لانگ مارچ ختم ہوچکی تھی۔ کس نے کیا کہا اور کیا کال دی گئی تھی سب حالات کا جائزہ لینا ہے، دیکھنا ہے ڈی چوک پہنچنے والے مقامی تھے یا لانگ مارچ کا حصے دار۔
وزارت داخلہ کے وکیل نے موقف اپنایا کہ عمران خان ہمیشہ ڈی چوک ہی آنا چاہتے تھے۔ انہوں نے جو عدالتی بیان دیے ہیں ان میں تضاد ہے۔ پہلے کہا ڈی چوک جانا ہے، پھر کہا پالیسی ایچ نائن گرائونڈ جانے کی تھی، عدالت عمران خان کے کتنے متضاد بیانات کو نظر انداز کرے گی؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ڈی چوک نہ جانے کے بیان پر عدالت نے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم دیا تھا، عدالتی حکم سے پہلے کے بیانات اور ارادے کا مقدمہ سے کیا تعلق؟۔ وزارت داخلہ نے عمران خان اور ان کی جماعت کے رہنماؤں کے بیانات کی ویڈیوز اور ٹویٹس عدالت میں پیش کر دیں۔ وکیل کا کہنا تھ اکہ پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ سے 25 مئی کی صبح ڈی چوک پہنچے کا ٹوئٹ ہوا، 3 بجے شیریں مزاری نے ٹوئٹ کر کے ڈی چوک آنے کا کہا، حالانکہ ایک بجے اسد عمر جی 9 ایچ 9 گراؤنڈ کی یقین دہانی کروا چکے تھے، 3:09 بجے اسد عمر کنٹینر پر عمران خان کے ساتھ تھے، اسد عمر عدالت کو یقین دہانی کرا کر گئے تھے کہ ایچ 9 کا گراؤنڈ چاہیے تھا، 4:13 منٹ پر عمران خان نے تقریر کی کہ رکاوٹیں عبور کر کے ڈی چوک پہنچیں گے۔ جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے دریافت کیا کہ اسد عمر نے عمران خان کو عدالتی حکم سے آگاہ کیا تھا اس کا کیا ثبوت ہے؟ وکیل کا جواب تھا کہ تحریری جواب کے مطابق اسد عمر ہیلی کاپٹر پر عمران خان کے پاس لانگ مارچ میں پہنچے، اسد عمر نے ایک بجے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی، یقین دہانی کے بعد ڈی چوک کا اعلان ہوا تو اسد عمر عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے، عدالتی حکم کے بعد بھی عمران خان ڈی چوک ہی آنا چاہتے تھے۔
دوسری جانب جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے عدالت عظمیٰ کو براہ راست کوئی یقین دہانی نہیں کرائی تھی، اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ عمران خان کی ہدایت پر یقین دہانی کرائی گئی، اگر کوئی غلط بیانی ہوئی ہے تو یہ بابر اعوان اور فیصل چوہدری کی جانب سے ہوگی۔ عدالت نے اس مقدمے کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔
Discussion about this post