آپ کو کیسا لگے گا کہ اگر آپ جو لباس پہنے ہوں وہی کوئی اور پہن کر آپ کے سامنے آجائے؟ پھر تو آپ کو غصہ ہی آئے گا کہ اتنی محنت کے بعد لباس کا انتخاب کیا، تاکہ آپ منفرد لگیں لیکن یہ تو یونفارم نکل آیا، کچھ ایسا ہی صحافی عفت حسن رضوی کے ساتھ بھی ہوا۔ اطالوی شہر روم کی قہر ڈھاتی گرمی سے بچنے کے لیے مقبول برانڈ زارا کے لانگ جیومٹرک پرنٹ کی فراک کا انتخاب کیا، خوب سیر سپاٹا کیا اور اترا اترا کر تصاویر بھی اتروائیں۔
Followed & Unfollowed a cult in just two days:
This tuesday, I bought a long geometric printed shirt from famous clothing brand Zara out in Rome. I wore it that evening, it was average.
🧵 pic.twitter.com/BnhSaiukzI— Iffat Hasan Rizvi (@IffatHasanRizvi) July 21, 2022
لیکن ان کی یہ خوشی اس وقت نو دو گیارہ ہوگئی جب انہوں نے اپنے جیسا ڈریس ایک اور خاتون کو بھی پہنے دیکھا۔ بات یہاں ایک دو خواتین کی نہیں بلکہ وہ جہاں جاتیں، وہاں کہیں نہ کہیں خواتین زارا کے یہی زگ زیگ لباس پہنی نظر آئیں۔
آپکو یاد ہوگا کہ ایک وقت تھا جب کسی تقریب یا شادی بیاہ کے جوڑوں کے لیے تھان پر تھان آتے اورآ پورے خاندان کی خواتین اسی تھان سے ایک جیسے جوڑے بناتیں، ایک جیسے لباس نہ بھی ہو تو ایک رنگ کے کپڑے ضرور بنتے، جسے آج کے دور میں ” تھیم یا ڈریس کوڈ” کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات شادی بیاہ، پارٹی یا دیگر تقریبات کی تھی، عام دنوں میں اپنے جیسا لباس کسی دوسری خاتون کو پہنا دیکھا جائے تو کچھ خواتین حسد اور جلن کا شکار ہوجاتی ہیں تو کچھ تعجب اور حیرانگی کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔
عفت حسن کیونکہ ایک صحافی ہیں تو تجسس اور تحقیقات تو کرنی تھی لہذا انہوں نے ایک ڈریس کے پیچھے خواتین کی اتنی تعداد دیکھ کر دوسرے روز ڈریس کے پرنٹ کو اسکین کیا۔ جس پر انہیں ٹیلی گراف میگزین کا ایک آرٹیکل ملا، جس میں زارا کے نئے سمر کلیکشن کے زگ زیگ ڈریس کو ”کلٹ ڈریس” قرار دیا گیا۔
کلٹ برین واشنگ اور ذہن کو کسی مخصوص سوچ سے وابستہ کر کے قابو کرنے کا طریقہ ہے۔ کلٹ گروپس کا استعمال عموماً مذہبی اور سیاسی حلقوں میں دیکھا گیا۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کے مخالفین اسکے حامیوں کو کلٹ گروپ کہہ کر چھیڑتے بھی رہتے ہیں۔ بہرحال سیاسی اور دوسرے مقاصد کے لیے کلٹس گروپس باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے جال میں پھنسانے اور قابو کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں جو آج کے دور میں سیاست کے بعد فیشن برانڈز میں بھی جگہ بنا رہے ہیں۔
صحافی عفت حسن بھی اسی کلٹس گروپ کا شکار بنی تھیں لیکن انہوں نے جلد ہی لباس کی واپسی کے بعد اس کلٹ ڈریس سے چھٹکارا پالیا اور اپنی رقم بھی واپس وصول کرلی۔
لیکن ایسا صرف باہر ممالک میں ہی دیکھا گیا کیونکہ پاکستان میں ایک بار خریدا ہوا لباس واپس نہیں ہوتا چاہے اس میں کوئی خرابی ہو یا وہ آپ نے پہنا بھی نہ ہو،تو رقم کی واپسی دور کی بات ہے لیکن کیا کبھی آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ آپ نے بھی کوئی ”کلٹ ڈریس” خریدا ہو اور نشاندہی کے بعد آپ کا ڈریس پیسے سمیت واپس ہوئے ہو؟ یاایسا ہی کوئی دلچسپ واقعہ ہے تو ہمیں کمنٹ کرکے ضرور بتائے گا۔
Discussion about this post