تاجر ذوالفقار احمد کی بازیابی سے متعلق درخواست پر سندھ ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ اس موقع پر اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ مسنگ پرسن کا کیس ہے وہ واپس آگئے ہیں۔ جس پر جسٹس کوثر سلطانہ نے سوال کیا کہ کیا یہ اغوا برائے تاوان کا کیس تھا؟ درخواست گزار کے وکیل کا موقف تھا کہ انہیں کراچی سے اٹھایا گیا اور لاہور سے ملے ہیں۔ جسٹس کوثر سلطانہ نے ریمارکس دیے کہ اسی طرح سے کاروباری لوگ کراچی سے جا رہے ہیں۔ جسٹس کوثر سلطانہ نے کہا کہ شاید ہم نے غیرملکی مشروبات پینا چھوڑ دی ہے اگر کرنا تھا تو رمضان میں کرتے۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ذوالفقار احمد عدالت میں خود پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرائیں گے، فی الحال ذوالفقاراحمد اس حالت میں نہیں کہ وہ بیان دے سکیں، پولیس مقدمہ درج کرنے کے لیے مختلف بہانہ بناتی رہی، بروقت مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا۔ جسٹسں کوثر سلطانہ نے پولیس حکام سے سوال کیا کہ بچے ملک چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں ایک موبائل کے لیے ان کی جان خطرے میں ہوتی ہے، والدین پریشان رہتے ہیں کوئی ایک موبائل کے لیے ان کے بچے کی جان نہ لے، لوگوں نے نجی سیکیورٹی گارڈز رکھ کر اپنے بینک اکاؤنٹ خالی کر لیے ہیں، وہ لوگ زیادہ مضبوط ہیں یہ آپ لوگ؟ سندھ ہائی کورٹ کی جسٹس کوثر سلطانہ کا کہنا تھا کہ اگر اب ذوالفقار احمد یا ان کے دفتر کا بندہ اغوا ہوا تو ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج ہو گا۔
Discussion about this post