لاہور سے تعلق رکھنے والی طاہرہ سلطانہ کے شوہر میجر ایس ایس راشد الحامد کی وفات 16 اکتوبر 1964 کو ہوئی۔ شوہرکزن تھے جبکہ طاہرہ سلطانہ اپنی پھوپھی کے یہاں بیاہ کر آئی تھیں۔ بھری جوانی میں بیوہ ہونے کے اس صدمے کے ساتھ انہیں اپنے کم سن 3 بچوں کو بھی پالنا تھا جن میں ایک بچی اسپیشل چلڈرن تھی۔ صرف 33 برس کی طاہرہ پراُس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب ان کی ساس نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ بیٹے کی جائیداد میں کسی بھی قسم کا کوئی حصہ نہیں رکھتیں اور ان کا اس سلسلے میں کوئی حق نہیں ہے۔
طاہرہ کے والد نے ساس یعنی اپنی بہن کو بہت سمجھایا لیکن وہ کسی طور راضی نہ ہوئیں۔ تبھی تھک ہار کر طاہرہ سلطانہ، والد کے مشورے پر 1970 میں لاہور کی سول کورٹ سے رجوع کرنے پر مجبور ہوئیں۔ یہ مقدمہ کئی برس تک چلتا رہا۔ سیشن کورٹ نے لوکل کمشنر کے لیے ایک رپورٹ بنائی کہ طاہرہ سلطانہ کو مرحوم شوہر کی وراثت میں سے کیا ملے گا اور کیا نہیں۔ اس رپورٹ کو ہائی کورٹ نے بھی تسلیم کیا لیکن اس سے پہلے یہ مقدمہ ہائی کورٹ میں دو ڈھائی سال تک چلتا رہا۔ عدالتی فیصلے کے مطابق چونکہ طاہرہ سلطانہ کے شوہر کی پراپرٹی بہت بڑی ہے اور کوئی ایک آدمی نہیں خرید سکتا اور اس کا حصہ بھی نہیں ہوسکتا ۔ اسی لیے اس کی نیلامی کرائی جائے اور جو کوئی اس کو خریدے گا اسے فوری طور پر اس کا قبضہ دے دیا جائے گا۔ کورٹ کا حکم تھا کہ یہ نیلامی ” ان ہاؤس” ہو۔ یعنی کہ خاندان والے ہی اس میں حصہ لیں اور بولیاں لگائیں۔ اس عمل سے پہلے جائیداد کی مالیت کا تخمینہ لگاکرعدالت میں پیش کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔ طاہرہ سلطانہ اس فیصلےپر خاصی خوش ہوئیں لیکن ان کے سسرال والوں نے چالاکی دکھاتے ہوئے کئی مربع میل تک پھیلی جائیداد کی مالیت انتہائی کم ظاہر کرائی۔ جس پر طاہرہ سلطانہ نے اعتراض کیا کہ وسیع و عریض جائیداد کی مالیت جان بوجھ کر محض اس لیے کم دکھائی گئی ہے تاکہ طاہرہ سلطانہ کو جو حصہ ملے وہ انتہائی کم ہو۔جس کے نتیجے میں کورٹ نے نیلامی روک دی۔ اسی لیے طاہرہ سلطانہ ابھی تک حصے سے محروم ہیں۔ طاہرہ سلطانہ کہتی ہیں کہ ” اس جدوجہد کے آغاز پر کئی خدشات تھے لیکن یقین تھا کہ ایک مرحلہ ایسا آئے گا جب بچوں کو ان کا حق ملے گا۔ اس عدالتی جنگ کے دوران اپنی جوانی کے قیمتی سال صرف سماعتوں کی نذر کردیے۔” طاہرہ سلطانہ کے حق میں اب تک عدالت کی طرف سے 2 فیصلے آچکے ہیں لیکن اس کے باوجود طاہرہ کو شوہر کی جائیداد سے کچھ نہیں ملا۔
اس وقت وہ 93 برس کی ہوچکی ہیں اور 2002 میں سپریم کورٹ کے آخری فیصلے کے مطابق جائیداد کو نیلام کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود طاہرہ سلطانہ ابھی تک انصاف کی منتظر ہیں۔ طاہرہ سلطانہ دل برداشتہ تو ہوئیں لیکن ہمت نہیں ہاریں۔ اسی لیے انہوں نے نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس تک رسائی حاصل کی جس نے طاہرہ سلطانہ کے اس مقدمے میں خاص دلچسپی لی اور ان کا حق دلانے کے لیے جدوجہد تیز کی۔ جس کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے طاہرہ سلطانہ کی دکھوں بھری داستان ہر ایک کے علم میں آئی۔ طاہرہ سلطانہ کے مطابق برسوں سے چلنے والی قانونی جنگ کے بعد اب ان کی مزید ہمت اور طاقت نہیں لیکن انہیں یقین ہے کہ وہ ایک دن اس جنگ میں ضرور کامیاب ہوں گی۔ کوئی تو ہوگا جو ان کی اس دکھ بھری کہانی کو ختم کرے گا۔ طاہرہ سلطانہ نے انتہائی غمگین لہجے میں بتایا کہ وہ اس جدوجہد کے دوران معذور بیٹی کو کھو چکی ہیں کیونکہ اس کی طبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی اضافی رقم نہیں تھی۔ جو سرمایہ تھا وہ قانونی چارہ جوئی میں خرچ ہوگیا۔ 26 سمتبر 2022 کو طاہرہ سلطانہ نے پنجاب انفورسمنٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2021 کے سیکشن 7 کے تحت محتسب پنجاب کے پاس ایک شکایت درج کرادی ہے جس میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کرایا جائے۔
اس حق جائیداد کے متعلق اب سماعت 26 جنوری 2023 کو رکھی گئی ہے۔ طاہرہ سلطانہ کی کہانی درحقیقت ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عدالت کے ذریعے جائیداد کے حقوق کا دعویٰ کرنا ایک خاتون کو کس قدر آزمائشوں اور مشکلات سے دوچار کردیتا ہے اور بدقسمتی سے خاتون اگر بیوہ ہو تو اس کے ہر موڑ پر کٹھن مشکلات اور دشواریاں ہی آتی ہیں۔ کئی خواتین ہمت ہار کر بیٹھ جاتی ہیں لیکن بہت کم ہی طاہرہ سلطانہ جیسی باہمت اور بلند حوصلہ ہوتی ہیں جو اس جنگ کو ہر حال میں جیتنے کے لیے پرعزم ہوتی ہیں۔
خواتین کے لیے وراثت میں حصول کے مسائل
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کے وراثت کے حصول میں اس وقت زیادہ مشکل آتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ متعلقہ خاتون کا تو شناختی کارڈ تک نہیں بناہوا۔ بیشتر خواتین کے شوہروں کے نام سے شناختی کارڈ نہیں ہوتے جو ان کے جائیداد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ بیوہ خواتین زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جو سسرال والوں سے جائیداد کے حصول کی مانگ میں ناکام رہتی ہیں۔ پاکستان میں ایک فرسودہ سوچ یہ بھی قائم ہے کہ چاہےکچھ بھی ہوجائے خواتین کو عدالت کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ پھر خاندان والوں کا دباؤ ہوتا ہے کہ خواتین کورٹ کچہری کرنے کے بجائے جو کچھ مل رہا ہے اس پر صبر شکر کریں اور قبول کرلیں۔
Discussion about this post