افغان وزیر تعلیم مولوی ندا محمد ندیم نے ایک مراسلے کے ذریعے باخبر کیا ہے کہ اُن کی حکومت نے خواتین کے یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کرنے پر فوری طور پر مکمل پابندی لگادی ہے۔ افغان حکومت کے اس فیصلے کے بعد اب خواتین تعلیم کی حصول سے محروم ہوچکی ہیں۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب افغانستان میں بچیاں سیکنڈری اسکولز بھی نہیں جا پارہیں۔ 3 ماہ پہلے ہی ہزاروں افغان لڑکیوں اور خواتین نے یونیورسیٹز میں داخلے کے لیے انٹری ٹیسٹ دیا تھا اب اس فیصلے کے بعد ان میں مایوسی اور ناامیدی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اگست 2021 میں جب طالبان نے افغانستان پر اپنے اقتدار کو دوبارہ حاصل کیا تھا تو انہوں نے یونیورسٹیز میں مرد اور خواتین کے لیے علیحدہ علیحدہ کلاس رومز اور داخلی راستے متعارف کرائے تھے۔
فیصلہ یہ بھی ہوا تھا کہ خواتین پروفیسریا عمر رسیدہ افراد ہی طالبات کوعلم کی روشنی سے منورہ کریں گے۔ اس تازہ فیصلے کے بعد اب عالمی سطح پر اس اقدام کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے خواتین کے یونیورسٹیز میں داخلے پر پابندی کو شرمناک قرار دیا ہے۔ دوسری جانب ترجمان اقوام متحدہ نے بھی اس عمل کو خواتین کے لیے ناانصافی قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق خواتین کو تعلیم سے دور رکھنا ناصرف خواتین اور لڑکویں کے مساوی حقوق کی خلاف وزری ہے بلکہ افغانستان کے مستقبل پر اس کے تباہ کن اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔
BREAKING: The Taliban have banned women from universities.
This is a shameful decision that violates the right to education for women and girls in Afghanistan. The Taliban are making it clear every day that they don’t respect the fundamental rights of Afghans, especially women. pic.twitter.com/Ydf13rvsbF
— Human Rights Watch (@hrw) December 20, 2022
Discussion about this post