سیلاب نے جیسے سندھ،بلوچستان اورجنوبی پنجاب کے کئی علاقوں کو بدترین تباہی سے دوچار کیاہے۔لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں اور سب سے زیادہ متاثر خواتین ہورہی ہیں۔ خاص کر ایسے میں جب ان کے ” مخصوص ایام ” ہوتے ہیں یا پھر ان میں سے کئی حاملہ ہیں جنہیں ضرورت کے مطابق وہ سہولیات نہیں مل رہیں جو لازمی ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ این جی اوز ان خواتین کی مدد تو کررہی ہیں لیکن خواتین کا شکوہ یہی ہے کہ دشواریاں ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہیں۔ بلوچستان کے امدادی کیمپوں میں رہنے والی بیشتر خواتین کے مطابق ” مخصوص ایام ” میں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ مشکل یہ بھی ہے کہ ایک خاص روایتی ماحول کے پیش نظر وہ یہ باتیں کھل کر بھی بیان نہیں کرسکتیں۔ امدادی سامان آتو رہا ہے لیکن ان میں خواتین کی اہم ضروریات کا سامان نہ ہونے کے برابر ہےاور پھرسب سے بڑھ کر یہ بھی ہے کہ خواتین ” مخصوص ایام ” کی لازمی چیزیں طلب کرتے ہوئے ہچکچاہٹ اور شرم کا شکار ہوتی ہیں۔
بیشتر خواتین کا کہنا ہے کہ وہ کپڑوں کو بطور سینیٹری پیڈز استعمال کررہی ہیں، وہ سیلابی پانی میں بہتے ہوئے آتے ہیں۔ جن سے ان کو مختلف بیماریوں کا خطرہ بھی لاحق رہتاہے. بدقسمتی سے ان متاثرین میں زیادہ تر وہ بچیاں ہیں جن کے ” مخصوص ایام ” کی شروعات ہے۔ان کے لیے سینٹری پیڈز ہیں نہ ہی میڈیسن ۔ دوسری جانب متاثرہ خواتین میں ایک بڑی تعداد حاملہ خواتین کی بھی ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ انہیں کھانے کو کبھی مل جاتا ہے اور کبھی سرے سے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ اس حالت میں بنیادی ضرورت دوائیوں کی ہوتی ہے لیکن مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس سہولت سے بھی محروم ہیں۔ حاملہ خواتین کے مطابق حکومتی اداروں آتے ہیں. میڈیکل کیمپ بھی لگتے ہیں مگر حمل کے دوراقن ضروری ادویات کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے۔
Discussion about this post