چینی صوبے گوانگ ڈونگ کے گاؤں ہوانگ زوجن اور لیان جیانگ میں منفرد پیش کش کی جارہی ہے۔ جو بچے یکم ستمبر کے بعد پیدا ہوئے ہیں، ان کے والدین کو ماہانہ 510ڈالر ادا کیے جائیں گے۔ یہی نہیں اس گھرانے کو ماہانہ رعایت بھی دی جائے گی، وہ بھی اُس وقت تک جب تک بچہ ڈھائی برس کا نہ ہوجائے اور یہ رعایت کم و بیش 15ہزار ڈالر تک کی ہوگی۔ لیان جیانگ میں فی کس اوسطً سالانہ آمدنی 3ہزار 295ڈالر ہے۔ یہ پیش کش گاؤں کے ایک دولت مند شخص کی جانب سے کی جارہی ہے۔
اب یہ پیش کش اِس لیے دی جارہی ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں چین کو آباد ی کے گھٹنے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اسی لیے پہلے ایک، پھر 2اور پھر 3بچوں کے پیدا کرنے کی پالیسی متعارف کرائی گئی۔ جس کا مقصد چینی آباد ی میں اضافہ کرنا ہے لیکن اس کے باوجود چینی جوڑے پرورش اور تعلیم و تربیت کے اخراجات کا سوچ کر خاندان کو بڑھانے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں۔اب یہ نئی مراعات انہیں ان کا مالی بوجھ کرنے کے لیے دی جارہی ہیں۔میڈیا رپورٹس اس جانب اشارہ کررہی ہیں کہ چین کی آبادی کئی دہائیوں بعد سست ترین شرح سے بڑھ رہی ہے اور یہی بات چینی حکام کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔
چین کے کئی علاقوں میں پیش کشیں
آباد ی میں اضافے کی ترغیب کے لیے شمالی مغربی گانسو صوبے کی لنز کاؤنٹی میں اُن جوڑوں کو زمین کی خریداری پر6200ڈالرز کی رعایت دی جارہی ہے، جن کے 2یا پھر 3بچے ہیں۔ اسی طرح مقامی حکومت بھی فی بچہ 1500ڈالرز نقد مراعات کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ کچھ ایسی ہی رعایت کی خصوصی پیش کش صوبے سیشوان کے پانزیہوا کے باسیوں کے لیے، جنہیں فی بچہ 80ڈالرز ماہانہ نقد رقم دی جارہی ہے۔
پیش کش کے باوجود تنقید کیوں؟
چین میں اس قدر مراعات اور پیش کشوں کے باوجود کئی افراد اسے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ 3بچوں کی خواہش سے خواتین میں صحت کے کئی مسائل جنم لیں گے۔ صنفی عدم مساوات میں اضافہ ہوگا اور زچگی کے دوران آنے والی پیچیدگیوں کے باعث اموات میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔ اسی طرح زیادہ بچے پیدا کرنے کی خواہش کے پیش نظر خواتین کو کیرئیر کی بھی قربانی دینا پڑے گی۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہیں ملازمتوں کے دوران امتیازی سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہرحال یہ تحفظات شہری آبادی کے ہیں لیکن گاؤں دیہات میں رہنے والے اسے اپنے لیے نعمت سے کم قرار نہیں دیتے۔ کیونکہ حالیہ سروے میں یہی بات آئی تھی کہ وہ صرف 3عوامل رہائش، تعلیم اور بچوں کی دیکھ بھال کے اخراجات سے پریشان ہیں۔ اب جب ان سب کی آسانیاں ہورہی ہیں تو وہ ہنسی خوشی آبادی میں اضافے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
Discussion about this post