سوشل میڈیا ہو یا پھر ٹی وی چینلز اس وقت دھوم مچی ہے تو حیدر علی کی، کئی ہیش ٹیگز گردش میں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کے ارکان نے ٹوکیو پیرا اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتنے والے حیدر علی کو ’فخر پاکستان ‘ اور نجانے کون کون سے اعلیٰ خطابات سے نہیں نوازا۔
فنکار اور کھلاڑی بھی اس دوڑ میں کسی سے پیچھے نہیں۔ درحقیقت حیدر علی کا کارنامہ ہی ایسا ہے، جس پر فخر محسوس کرنا چاہیے۔ کیونکہ انہوں نے مردوں کے ڈسکس تھرو میں 5ویں باری میں 55اعشاریہ 26میٹر کی ایسی تھرو کہ ان کے گلے میں طلائی تمغہ سج گیا۔
گوجرانوالہ کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھنے والے حیدر علی کی دائیں ٹانگ پیدائشی طور پر بائیں ٹانگ سے 2انچ پتلی اور ایک انچ چھوٹی ہے۔ بدقسمتی سے حیدر علی پیدائش کے دو ہفتوں بعد ہی پولیو کا شکار ہوگئے تھے، جنہوں نے اسے اپنی کمزوری نہیں بنایا۔ وہ اس سے پہلے 2008کے بیجنگ کے پیرا اولمپکس میں چاندی اور پھر 2016میں ریو ڈی جنیرو اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیت چکے ہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں تمغے انہوں نے لانگ جمپ ایونٹ میں حاصل کیے تھے۔
کامیابی پر ہی پذیرائی کیوں؟
حیدر علی کوئی پہلے کھلاڑی نہیں ہوں گے، جنہوں نے گمنامی کے اندھیروں سے نکل کر نامساعد حالات اور کم وسائل میں رہتے ہوئے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔
چند ہفتوں پہلے ہی ٹوکیو اولمپکس میں نیزہ باز ارشد ندیم کا ڈنکا بج چکا ہے۔ وہ جیت تو نہ پائے لیکن جس طرح انہوں نے کارکردگی دکھائی، اُس پر ہر جانب ان کا چرچا رہا۔ ایک ارشد ندیم ہی کیا، سید حسین شاہ، نسیم حمید، باکسر محمد وسیم، طلحہ طالب اور نجانے ایسے کئی نام ذہنوں میں جھلما اٹھتے ہیں،جن کی قدر صرف اُسی وقت ہوئی جب انہوں نے پاکستان کے لیے کوئی اعزاز حاصل کیا۔ جس کے بعد ہر جانب انہیں ’قومی ہیرو‘ بنانے کا فیشن چل پڑتا ہے۔
آخر پاکستان اولمپکس فیڈریشن یا پھر دوسری فیڈریشز کو ملنے والے فنڈز کھلاڑیوں پر کب استعمال ہوں گے؟ تاکہ وہ بین الاقوامی معیار کی تربیت، خوراک کے ساتھ ماحول حاصل کریں۔ کیا یہ ستم ظریفی نہیں کہ ٹوکیو اولمپکس میں نیزہ بازی کے مقابلے میں بھارتی کھلاڑی نے یورپ میں تربیت حاصل کی اور ارشد ندیم پنجاب کے کھیت کھلیانوں میں یہ مشق کرنے میں مصروف تھے۔
المیہ یہ ہے کہ کرکٹ نے ملک میں دیگر کھیلوں کی افادیت اور مقبولیت کو ماند کردیا گیا ہے۔ اسپانسرز بھی کرکٹ میلوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں، جبکہ وہ کھیل جنہیں اسپانسرز کی ضرورت ہے، وہ زبوں حالی کا شکار ہیں۔ کھلاڑیوں کی قدر، کامیابی پر کرنے کے بجائے اگر وقت سے پہلے کرلی جائے تو ممکن ہے کہ پاکستان ہر کھیل میں طلائی نہیں تو کم از کم چاندی کا تمغہ ہی جیت کر آئے۔
Discussion about this post