آسٹریلوی کرکٹ پرستار لیوک گیلین ان دنوں مرکز نگاہ بنے ہوئے ہیں۔ 24 سال بعد ان کی ٹیم پاکستان کی مہمان بنی ہے تو وہ بطور خاص آئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ آخری بار 1998 میں جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے تو کچھ ناخوشگوار تجربات سے پالا پڑا لیکن اس بار ان کا اور ٹیم کا جس شاندار انداز میں استقبال کیا گیا، اُس نے انہیں خوشگوار حیرت سے دوچار کیا ۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے ” اے ایف پی ” سے گفتگو کرتے ہوئے لیوک گیلین کہتے ہیں گزشتہ دورے میں باہر جانا خطرے سے خالی نہیں تھا لیکن اُنہوں نے اس کے باوجود ہوٹل سے باہر نکل کر گھوما پھرا تو پاکستانی تماشائیوں نے نامناسب رویہ اختیار کیا لیکن اب ایک ایک نیا پاکستان ان کا استقبال کررہا ہے۔ ہر کوئی خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آرہا ہے۔
پاکستانیوں کے رویے میں خوشگوار تبدیلی آئی ہے۔ 51 برس کے آسٹریلوی پرستار کا تعلق ریاست وکٹوریہ سے ہے۔ کہتے ہیں کہ راولپنڈی میں ہر روز اُن کی 500 سے زیادہ تصاویر لی گئیں۔ یہی نہیں مہمان نوازی بھی ایسی کی گئی کہ جو بیان سے باہر ہے۔ انہیں یاد نہیں کہ کتنی بار انہیں چائے کے کتنے کپ، کیک کے ٹکڑے، پانی اور دیگر مشروبات میدان میں موجود تماشائیوں نے بلامعاوضہ انہیں پیش کیے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مفت بال کٹوائے اور کپڑے بھی بلا معاوضہ دھلائے۔
وہ کہتے ہیں کہ بلاشبہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے اور خاص طور پر اس لیے بھی آئے کہ دنیا کو بتاسکیں کہ پاکستان کا سفر کرسکتے ہیں۔ یہاں پرسکون اور پرامن انداز میں لطف اٹھا سکتے ہیں۔ آسٹریلوی کرکٹ پرستار لیوک گیلین موجودہ دورے کو اپنی زندگی کا بہترین دورہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق کرکٹ عظیم کھیل ہے جو دو قوموں اور دو ثقافوں کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتا ہے۔ جیت یا ہار اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
Discussion about this post