کہا جاتا ہے کہ کرکٹ میں ملنے والے ہر ” چانس ” سے فائدہ اٹھانا چاہیے، چاہے وہ کیچ کی صورت میں ہو، رن آؤٹ، فل ٹاس یا پھر شارٹ پچ گیند کی صورت میں، یہاں تک کہ اگر ٹیم دباؤ میں ہو تو اس چانس کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دو۔ کراچی ٹیسٹ میں جب آسٹریلوی ٹیم نے پہلی اننگ میں 556 رنز بنائے اور پھر شام سے پہلے پاکستانی ٹیم کو 148 رنز پر چلتا کیا تو کپتان پیٹ کمنز نے میزبان ٹیم کو فالوآن کرانے کے بجائے خود کھیلنے کا ارادہ کیا۔ درحقیقت یہی وہ لمحہ تھا، جب آسٹریلیا نے ایک یقینی ” چانس ” کو ضائع کیا۔ خاص کر ایسے میں جب پاکستانی ٹیم سخت دباؤ میں تھی اور ڈیڑہ سو بھی نہیں کر پائی تھی لیکن پیٹ کمنز کو یہ ” خوش فہمی ” تھی کہ تھوڑے بہت رنز کرکے وہ پھر سے پاکستانی ٹیم کو پہلی اننگ کی طرح ڈریسنگ روم کی راہ دکھا سکتے ہیں۔ ممکن ہے ایسا بھی ہوجاتا کیونکہ دوسری اننگ میں 21 رنز پر اظہر اور امام کے رخصت ہوجانے کے بعد آسٹریلوی کپتان کا فیصلہ درست بھی لگ رہا تھا لیکن پھر کھیل کی کمان عبداللہ شفیق اور بابراعظم کے ہاتھوں میں آگئی۔
جنہوں نے ذمے داری اور سمجھ داری سے مہمان بالرز بالخصوص پیٹ کمنز کے ارمانوں کو خاک میں ملایا۔ نوجوان عبداللہ شفیق نے بتایا کہ وہ کس پائے کے کھلاڑی ہیں تو وہیں بابراعظم نے پھر سے اپنی کلاس دکھائی۔ بلاشبہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ آفریدی کے بعد مین آف دی میچ بابراعظم وہ دوسرے کھلاڑی ہیں، جن کا کھیل دیکھنے کے لیے تماشائی پرجوش انداز میں میدان کا رخ کرتے ہیں۔
ذرا تصور کریں کہ 2 دن تک بیٹنگ کرنا اور پھر اس میں کوئی چانس نہ دینا، یہ ایک عظیم بلے باز کی ہی تو نشانی ہے۔
And it’s the end of a beautiful innings by our captain. Babar spent 607 minutes on the crease, most by any Pakistan batter in the 4th innings.
Gets the loudest cheers from NSK. #BoysReadyHain l #PAKvAUS pic.twitter.com/apDhYk2Uy3— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) March 16, 2022
بہرحال بابراعظم کے 196 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد آسٹریلیا پے در پے مزید 2 کامیابیاں حاصل کرکے میچ میں واپس آنے کی پوزیشن میں آگیا تھا لیکن یہاں پھر رضوان چٹان کی طرح کھڑے ہوگئے۔ ناصرف سنچری بنائی بلکہ میچ بھی بچایا۔ لیکن قسمت کی دیوی نے ایک بار پھر مہمان ٹیم کو ایک اور ” چانس ” دیا تھا جب میچ کے 4 اوورز باقی تھے اور رضوان کے بلے سے نکلنے والا شاٹ ایکسٹرا کور پر کھڑے خواجہ کی جھولی میں آکر گر گیا۔ ممکن ہے کہ یہ لپک لیا جاتا تو رضوان سنچری بھی نہ بناپاتےاور پیٹ کمنز کے فالوآن نہ کرانے کے فیصلے کو بھی تسلی مل جاتی لیکن ” چانس ” ضائع کرنے کا فائدہ آسٹریلیا کو نہیں پاکستان کو ہوا۔
What a knock! Relive @iMRizwanPak‘s celebration! #BoysReadyHain l #PAKvAUS pic.twitter.com/S9BxxykhVE
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) March 16, 2022
آسٹریلیا نے اس میچ سے یہی سبق سیکھا ہوگا کہ زیادہ ” خوش فہمی ” نقصان دہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ رہ گیا پاکستان تو اس کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہاری ہوئی بازی کو پلٹنے میں کامیاب ہوا۔ جس نے آسٹریلیا کی طرف سے ملنے والے اس ” چانس ” کا فائدہ بہترین انداز میں اٹھایا۔ جس کے نتیجے میں تیسرے ٹیسٹ میں یقینی طور پر پاکستانی ٹیم ایک مختلف طرز کی حریف ثابت ہوسکتی ہے۔
Discussion about this post