دن بھر سے امریکی نشریاتی ادارے ” فوکس نیوز ” کے ایک کلپ کو عمران خان سمیت پی ٹی آئی اور اس کے حامی اس دلیل کے طور پر پیش کررہے ہیں کہ یہ مبینہ امریکی سازش کا ثبوت ہے۔ کلپ میں امریکی سلامتی کی غیر معروف ماہر ڈاکٹر ربیکا گرانٹ یہ تبصرہ کررہی ہیں کہ پاکستان کو یوکرین جنگ میں یوکرین کا ساتھ دینا ہوگا، روس کے ساتھ معاہدے نہیں کرنے چاہیے۔ انہوں نے اپنی رائے میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کو چین سے تعلقات محدود کرنے ہوں گے اور امریکی مخالف پالیسز روکنی ہوگی، جس کی وجہ سے عمران خان ، تحرک عدم اعتماد میں ووٹ آؤٹ ہوئے۔ اس تبصرے میں ایک تجزیہ کار کی رائے یا تجزیہ ہے۔ جسے یقینی طور پر امریکی حکام کا موقف نہیں تسلیم کیا جاسکتا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی رہنما اسی کلپ کی بنا پر یہ دعویٰ کرتے رہے کہ پاکستان میں حکومتی تبدیلی کی مبینہ امریکی سازش بے نقاب ہوگئی۔
یہاں تک کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک بعد کئی ٹوئٹس کر ڈالے۔ اُن کے مطابق تبدیلی اقتدار کی امریکی سازش کے بارے میں کوئی شک تھا بھی تو اس ویڈیو کے بعد باقی نہیں رہنا چاہیے۔ عمران خان نے تو اسی تجزیہ کو بنیاد بنا کر بائیڈن انتظامیہ سے بھی سوال کر ڈالے کہ وہ 22 کروڑ عوام کے دیس میں ایک منتخب جمہوری وزیراعظم کو ہٹانے اور ایک کٹھ پتلی کو لانے کیلئے حکومت کی تبدیلی کی ایک سازش کا حصہ بن کر، کیا خیال ہے کہ آپ نے پاکستان میں امریکہ کیخلاف نفرت میں کمی کی یا اضافہ کیا ہے؟
ڈاکٹر ربیکا گرانٹ کون ہیں؟
ڈاکٹر ربیکا گرانٹ واشنٹگٹن میں مقیم قومی سلامتی اور دفاعی کی عام سی تجزیہ کار ہیں۔ جنہوں نے 25 برس کی عمر میں لندن اسکول آف اکنامکس سے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان دنوں وہ آئی آر آئی ایس انڈپینڈنٹ ریسرچ چلاتی ہیں۔ وہ ” فوکس نیوز” میں اپنے تجزیے پیش کرتی رہی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ ہیں اور ناہی کبھی امریکی حکومت سے اُن کا دور دور سے کوئی تعلق ہے۔ اسی طرح نہ کسی بھی عرصے میں امریکی حکومت نے ان کی خدمات حاصل کیں۔ اس تناظر میں اُن کے تجزیے اور تبصرے ان کے نجی خیالات کے عکاس ہوتے ہیں۔ یقینی طور پر ان کا امریکی حکام کو بیانیے تصور نہیں کیا جاسکتا۔
تجزیہ کار کےبیان کو اہمیت اور امریکی حکام کو نہیں؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کا ذمے دار جب سے مبینہ طور پر امریکا کو ٹھہرایا ہے۔ امریکی حکام اور وائٹ ہاؤس کی ترجمان کئی بار اسے رد کرچکے ہیں۔ بیشتر مواقع پر بائیڈن انتظامیہ نے اس کی سختی کے ساتھ تردید کی۔
فوکس نیوز کا مشکوک پس منظر
فوکس نیوز کا امریکی معاشرے میں ایک ٹبولائیڈ نیوز چینل کے طور پر دیکھا جاتاہے۔ ماضی میں کئی مواقع پر چینل کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ خود سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ” فوکس نیوز” کو بے بنیاد اور فیک نیوز پھیلانے کا ذمے دار قرار دے چکے ہیں۔
چینل کئی مواقع پر اپنی من گھڑت خبروں پر معذرت بھی کرچکا ہے۔ 15 نومبر 2020 کو نیوز ہوسٹ ٹکرر کارلسون کو اس لیے معافی مانگنی پڑی کیونکہ چینل سے یہ جھوٹی خبر نشر ہوئی کہ جورجیا میں 14 سال سے مردہ شخص نے 2020 کے انتخابات میں ووٹ دیا، جب کہ حقیقت میں یہ اس کی 96 سالہ بیوہ تھی جس نے اپنا ووٹ ڈالا۔
اسی طرح 5 جون 2018 کو امریکی مسلم کھلاڑیوں کی رکوع میں جانے کی تصاویر کو یہ کہہ کر نشر کیا کہ وہ گھٹنے کے بل پر قومی ترانے پر احتجاج کررہے ہیں۔ اصل حقیقت عیاں ہونے پراس چینل کو معذرت کرنی پڑی۔ 21 ستمبر 2020 کو بھی نیوز چینل نے اس افواہ کو پھیلانے پر معذرت کی کہ نیشول ٹینیسی میں کورونا کی نئی وبا پھیل گئی اور میئر حقائق کو چھپا رہے ہیں۔ اس افواہ کے نشر ہونے پرمتعلقہ شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا جو چینل کی معذرت کے بعد تھوڑا کم ہوا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو ” فوکس نیوز” کی ساکھ خاصی مشکوک رہی ہے، جس کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ معاشرتی تفریق پھیلانے میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔
پاکستانی تجزیہ کاروں کی رائے
بیشترتجزیہ کار اور تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ "فوکس نیوز” پر ڈاکٹر ربیکا گرانٹ کو امریکی موقف ماننا ناقابل فہم ہے۔ کیونکہ پاکستان میں بھی بیشتر تبصرہ نگار مختلف بین الاقوامی امور پر مختلف خیالات رکھتے ہیں۔ جو اپنے مضامین اور ٹی وی تبصروں میں ان کا اظہار کرتے ہیں لیکن کسی بھی صورت میں یہ ریاستی بیانیہ تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ایک عام سی تجزیہ کار ڈاکٹر ربیکاگرانٹ کے بیان کو ترجیح دینا اور امریکی عہدیدار کے سرکاری بیانات کو تسلیم نہ کرنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔
اس ضمن میں تجزیہ کاروں کے مطابق یہ ڈس انفارمیشن ہی ہے۔ جس شخصیت کے بیان کا حوالہ دیا جارہا ہے، وہ امریکی اہلکار نہیں اور متعلقہ چینل امریکا میں جھوٹ اور نفرت پھیلانے کے لیے شناخت کیا جاتا ہے۔ کتنی حیران کن بات ہے کہ عمران خان امریکی سازش کے ثبوت کے طورپر فوکس نیوز کے کلپ کا حوالہ دے رہے ہیں۔اپنے اداروں پر بھروسہ کرنے کے بجائے عام اور غیر معروف تجزیہ کار پر یقین کیا جارہاہے۔
Discussion about this post