رواں سال 11مارچ کو متنازعہ اور ہندوتوا سوچ کی حامل فلم ” دی کشمیر فائلز” بھارت بھر میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ جس پر باشعوربھارتیوں، مسلمانوں اور مقبوضہ کشمیر کی عوام نے شدید اعتراض کیا تھا۔ جبکہ تنگ نظر بھارتی اداکاروں اور جماعتوں نے اس پر واویلا مچانا شروع کردیا کہ فلم کے ذریعے یہ ثابت ہورہا ہے کہ کس طرح کشمیری پنڈتوں کی مقبوضہ وادی سے بے دخلی ہوئی۔ باشعورتجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ فلم میں ہندوؤں کے مقبوضہ وادی سے اخراج کو یکطرفہ انداز میں پیش کیا گیا ہے جبکہ کشمیری مسلمانوں کو پوری فلم میں دہشت گرد کے طور پر دکھایا گیا۔ انتہا پسند بھارتی وزیراعظم مودی، اُن کی کابینہ اور متعصب بھارتیا جنتا پارٹی نے کھل کر ” دی کشمیر فائلز” کی حمایت کی تھی۔ ہدایتکار وویک اگنی ہوتری کی اس متنازعہ فلم کو جب سنگاپور میں لگانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تو سنگاپورحکام نے یہ کہہ کر پابندی لگادی کہ ” دی کشمیر فائلز” نفرت کے گرد گھومتی ہے۔ جس کی نمائش سے معاشرے کی 2 مختلف برادریوں کے درمیان دشمنی اور نفرت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ فلم کا مواد مسلمانوں کے خلاف ہے۔ جس سے نسلی فساد کو فروغ ملے گا اور سماجی اور مذہبی ہم آہنگی متاثر ہوسکتی ہے۔ فلم، سنگاپورکے تحت شدہ خطوظ کے برخلاف ہے۔
تبصرہ نگاروں کے مطابق ” دی کشمیر فائلز” درحقیقت حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی کی سوچ کو پروان چڑھاتی ہے، جو بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو وجود کسی صورت برداشت نہیں کرتی۔ بھارت کے کئی سیاست دانوں، دانشوروں اور صحافیوں نے سنگاپور حکام کے فلم ” دی کشمیرفائلز” پر پابندی لگانے کے فیصلے کو سراہا ہے۔
Discussion about this post