الہ آباد ہائی کورٹ کے تنگ نظری سے بھرے فیصلے پر بھارتی مسلمان عجیب سے خوف کا شکار ہوگئے ہیں۔ کیونکہ جسٹس شیکھر یادیو نے 12صفحات پر بنی سخت فیصلے میں مرکزی حکومت کو حکم دیا گیا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے، گائے کو قومی جانور قرار دیا جائے اور اس کا تحفظ ہندؤوں کا بنیادی حق ہے۔
انتہا پسند اور متعصب جسٹس شیکھر یادیو کا مزید کہنا تھا کہ گائے نے بھارتی ثقافت میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا اور اسے ملک بھر میں ایک ماں کے طور پر عزت دی جاتی تھی۔ گائے کو بھارت کی قدیم تحریروں میں جیسے وید اور مہا بھارت کا اہم حصہ قرار دیا گیا ہے۔ جو بھارتی ثقافت کی عکاسی کرتا ہے۔
معاملہ عدالت تک کیوں پہنچا؟
مسلمانوں کے کٹر دشمن تصور کیے جانے والے اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ نے پوری ریاست میں گائے کے ذبح پر پابندی لگا کر سخت سے سخت سزا دینے کا قانون ’گاؤ رکشک‘ نافذ کر رکھا ہے۔ رواں برس مارچ میں 59برس کے جاوید کو اس لیے گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا کیونکہ وہ اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا گیا تھا۔ جاوید نے ضمانت کی عرضی دی تھی۔ جس پر الہ آباد ہائی کورٹ میں کئی مہینوں سے سماعت جاری تھی۔ جسٹس شیکھر یادیو نے ناصرف بھارتی مسلمان جاوید کی ضمانت رد کی بلکہ سخت احکامات بھی دیئے۔ جسٹس شیکھر کا کہنا تھا کہ جاوید نے پہلے بھی گائے ذبح کی تھی اور اگر عدالت اسے رہا کرے گی تو عین ممکن ہے کہ یہ دوبارہ یہ عمل کرے۔ جب کسی ملک میں رہنے والے عقیدے کو نقصان پہنچایا جاتا ہے تو ملک کمزور ہوجاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بھارتی انتہا پسندوں کا مطالبہ
انتہا پسند اور ہندوتوا سوچ کے حامل بھارتیوں نے سوشل میڈیا پر الہ آباد ہائی کورٹ کی کھل کر حمایت کی ہے۔ جن کا ماننا ہے کہ مودی حکومت پہلی صورت میں شیر کے بجائے گائے کو قومی جانور قرار دے۔ انتہا پسندوں کا مطالبہ تو یہ بھی ہے کہ ’گاؤ رکشک‘ کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو کڑی سزا بھی دی جائے۔ انتہا پسندوں کا ہدف مسلمان ہیں۔ جو اس بات سے لرزے ہوئے ہیں کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے اس متعصبانہ فیصلے کے بعد اب ان کے خلاف گھیرا اور تنگ کیا جائے گا۔ صرف اتر پردیش ہی نہیں بھارت کی کئی ایسی ریاستیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے، وہاں گاؤ رکشک کا قانون لاگو ہے۔
مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد گاؤ رکشک کا خوف ناک کھیل
ایک سروے کے مطابق 2010سے اب تک بھارتی مسلمانوں پر 63فی صد حملے گاؤ رکشک کے نام پر ہوچکے ہیں۔ جب سے مودی سرکار آئی ہے ان میں 97فیصد اضافہ ہوا۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2017کے ابتدائی 6مہینوں میں گائے کے نام پر مسلمانوں پر تشدد کے 20واقعات ہوئے جو2016کے مقابلے میں 75فیصد زیادہ ہیں۔ ان حملوں میں قتل و غارت گری سب سے زیادہ نمایاں رہی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق بیشتر واقعات میں جھوٹا الزام لگا کر بھی مسلمانوں کی زندگیوں کا چراغ گل کیا گیا۔ جب کہ پولیس اس سارے خونی کھیل میں حسب روایت خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ گائے کی حفاظت کے نام پر مختلف ریاستوں پر انتہا پسند وں کی الگ الگ جماعتیں ہیں، جو کبھی بھی مسلمانوں پر حملہ کردیتی ہیں۔
بھارتی عدالتیں بھی کیا مودی کے زیراثر؟
سمجھوتہ ایکسپریس میں دہشت گردی کے مجرم ہوں یا پھر بابری مسجد کو شہید کرنے کا معاملہ، حالیہ دنوں میں بھارتی عدالتوں کے بیشتر ایسے تواتر کے ساتھ متعصبانہ فیصلے سامنے آئے ہیں، جو مسلمانوں کے خلاف قرار دیئے جاتے ہیں۔ بالخصوص بابری مسجد کی شہادت کے فیصلے پر اراضی کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کے بجائے رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ کرنے والے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رانجن گوگئی کا کردار انتہائی تنگ نظری سے بھرا رہا۔ جنہیں مودی حکومت نے اس فیصلے کا انعام راجیہ سبھا کا رکن بنا کر دیا۔
بدقسمتی سے بھارتی مسلمانوں کو اب عدالتوں پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔ جو ہمیشہ ان کے خلاف فیصلہ یا حکم دینے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگاتیں۔ اس کی تازہ مثال الہ آباد ہائی کورٹ کا بے رحمانہ فیصلہ ہے۔
Discussion about this post