امریکی تحقیق کار خاتون ربیکا تھرسٹون کی نئی تحقیق کے مطابق جن خواتین پر جنسی حملے ہوچکے ہیں، اُن میں دماغی امراض کی مختلف بیماریاں جیسے ڈیمنشیا اور فالج کے ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ ان میں وہ خواتین بھی شامل ہیں جو بچپن میں جنسی استحصال کا نشانہ بنی ہوں۔ ربیکا تھرسون جو یونیورسٹی آف پٹسبرگ کے گریجویٹ اسکول آف پبلک ہیلتھ میں ویمن بائیور ہیلتھ لیبارٹری کی پروفیسر اور ڈائریکٹر ہیں۔ اُن کی تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر خواتین جنسی حملوں کا شکار انتہائی کم عمری میں ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف جنسی تشدد پر اب بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ خواتین کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے سنگین مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ ماضی میں ہونے والی مختلف تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آچکی ہے کہ جنسی ہراسانی یا زیادتی خواتین کو مختلف بیماریوں میں گھیر لیتی ہے۔ ان میں دل کے امراض کے ساتھ بلڈ پریشر نمایاں ہیں۔
ربیکا تھرسٹون کا کہنا ہے کہ 2018میں بھی معلوم ہوا کہ جن خواتین کے ساتھ زیادتی ہوئی، ان میں ڈپریشن ہونے کا امکان 3گنازیادہ بڑھ گیا ہے اور وہ جنسی صدمے کا شکار ہو کر بے چینی اور بے خوابی کی کیفیت سے دوچار ہوئیں۔ امریکی اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ 3میں سے 1سے زائد خواتین زندگی میں کم از کم ایک بار جنسی زیادتی کا شکار ہوچکی ہیں۔ امریکی تحقیق کار خاتون ربیکا تھرسٹون کے مطابق ایسی خواتین کے لیے ضروری ہے کہ ان کے طبی معالجین ان کی عمر کو دیکھتے ہوئے ذہنی نشوونما کے بارے میں مختلف اقدامات کریں۔ ایسی خواتین کو یہ ہمت اور حوصلہ دلایا جائے کہ وہ کھل کر ڈاکٹرز سے اپنے مسائل کو بیان کرسکیں۔ ان کے مطابق یہ ڈاکٹرز کا بھی فرض ہے کہ جنسی ہراسانی کا شکار خواتین کے معاملے کو ترجیح بنیاد بنا کر اہمیت دیں۔
Discussion about this post