جنوبی افریقی ملک صومالیہ گزشتہ 3دہائیوں سے خانہ جنگی اور دہشت گردی کی مختلف کارروائیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ شدت پسندوں کا ایک بڑا گروپ صومالیہ کے مختلف حصوں میں پھیلا ہوا ہے۔ جنہوں نے عوام کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔ جنگجوؤں کی جانب سے بم دھماکے، خود کش حملے اور دہشت گردی میں ایسا اضافہ ہوا ہے کہ عوام خو ف و ہراس کا شکار ہیں۔ بالخصوص موغادیشو تو شدت پسندتنظیموں کا پسندیدہ ٹھکانہ تصور کیا جاتا رہا ۔ میڈیا رپورٹس اس جانب بھی اشارہ کرتی ہیں کہ موغادیشو میں القاعدہ اور داعش کے ارکان مختلف کاررائیوں میں ملوث رہے۔ بیشتر سرکاری عمارتوں پر جنگجوؤں کے قبضے رہے۔ بالخصوص سنیما گھر شدت پسندوں کے فوجی اڈوں میں تبدیل ہوگئے۔ 2012میں ایک سنیما گھر کو اِن سے چھڑایا گیا تو کچھ عرصے بعد ہی اسے دہشت گردوں نے دھماکہ خیز مواد سے اڑا ڈالا۔
حالیہ برسوں میں صومالیہ حکومت نے دہشت گردی کے خلاف بھرپور ایکشن ایکشن لیا۔ دعویٰ تو یہی کیا جاتا ہے کہ شہری علاقوں سے شدت پسندوں کا صفایا کردیا گیا ہے لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ضرور ہوتا ہے۔ اس خوف و ہراس کی صورتحال میں صومالی عوام تفریح کو جیسے بھول سی گئی ہے۔ بالخصوص ایسے میں جب 1991سے اُن کے بیشتر سنیما گھروں میں تالے پڑے ہیں لیکن اب نظر آتا ہے کہ صورتحال میں بہتری آئی ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ بدھ کو موغادیشو میں 30سال کے بعد باقاعدہ طور پر سنیما گھر میں کسی فلم کی نمائش ہوئی اور عوام نے جس سے بھرپور لطف اٹھایا۔ یہ سنیما گھر چینی ماہر تعمیرات ماؤ زیڈونگ نے1967میں بنایا تھا، یہ ان سنیما گھروں میں سے ایک رہا،جسے شدت پسندوں نے دھماکے سے اڑایا بھی تھا لیکن حکومت نے ازسر نو اس کی تعمیر کا آغاز کیا۔ جہاں مختصر دورانیے کی 2فلمیں زینت بنیں۔
اس موقع پر سنیما گھر کے آس پاس سخت اور کڑے حفاظتی پہرے لگائے گئے تھے۔ صومالیہ کی وہ نسل، جس نے کبھی سنیما گھر میں جا کر فلم کا نظارہ نہیں کیا تھا، اُس کے لیے یہ یادگار تجربہ رہا، جنہوں نے ان لمحات کو کیمروں میں بھی قید کیا۔ 30سال بعد اپنے ہی ملک میں فلم کا لطف اٹھانے والی عوام نے اس امید کا بھی اظہار کیا کہ یہ سلسلہ اب تھمنا نہیں چاہیے۔ماضی میں صومالیہ ثقافتی روایتی اور کھیلوں کی تقریبات کی بنا پر غیر معمولی فعال رہا ہے لیکن پھر خانہ جنگی اور دہشت گردی نے جیسے ان سبھی محفلوں کو خاموش کرادیا۔
Discussion about this post