جنم تو پنجاب کے شہر گرداس پور کے ایک متوسط گھرانے میں ہوا لیکن دیو آنند نے انگریزی ادب میں اپنی گریجویشن کی تعلیم 1942 میں لاہور کے گورنمنٹ کالج سے مکمل کی۔ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بے حد شوقین تھے لیکن والد نے یہ کہہ کر صاف الفاظ میں انکار کردیا کہ میرے پاس اور پیسے نہیں، مزید پڑھنا ہے تو اپنا کماؤ اور خود پر لگاو۔ حالانکہ بہترین طالبعلم ہونے کے ساتھ ساتھ اُنھیں زبانیں سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا، اُردو، ہندی، فارسی اور انگریزی کے ساتھ ساتھ وہ سنسکرت میں بھی مہارت رکھتے تھے لیکن اسکے باوجود والد نے تعلیم پر مزید پیسہ خرچ کرنے سے انکار کردیا۔ یہاں سے دیو آنند نے طے کیا کہ پڑھائی کے بجائے اگر ملازمت ہی نصیب میں لکھی ہے کہ تو اپنے شوق کے مطابق فلم انڈسٹری میں کیوں نہ قسمت آزمائی جائے۔ دیو آنند کے خاندان کو فن سے محبت ورثے میں ملی تھی، ان کے بھائی چیتن آنند اور کیتن آنند نے بھی لاہور ہی میں اپنے فن کو آگے بڑھایا،
یہ گھرانہ ایک روشن خیال تعلیم یافتہ گھرانہ تھا جسے لاہور شہر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ چیتن آنند کی فلم ”نیچا نگر” پہلی ہندوستانی فلم تھی جسے بین الاقوامی فلمی میلوں میں دکھایا گیا اور بھارت کی فلمی صنعت کا باقی دنیا سے تعار ف کرایا گیا۔ دیو آنند نے 1943 میں لاہور چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا، حالانکہ اس شہر سے جانے کے بعد بھی آخری دم تک لاہور کی یادیں ان کے دل سے نہ نکل سکیں اور لاہور والے بھی انہیں بہت پسند کرتے تھے۔
’رومانسنگ ود لائف‘ کے نام سے 2007میں ان کی خود نوشت شائع ہوئی جس میں لکھا ہے کہ ان کی پہلی محبت گورنمنٹ کالج لاہور میں ان کی ایک کلاس فیلو ایشا چوپڑہ تھی لیکن یہ سلسلہ آگے نہ چل سکا۔ بہرحال لاہور سے ممبئی پہنچے تو اسوقت کے بہت سے اسٹرگلنگ ہیروز کی طرح انکی جیب میں چند روپے ہی تھے۔ نئے شہر میں نہ کوئی دوست نہ عزیز رشتہ دار، لہذا نوجوان دیو نے ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک سستے سے ہوٹل میں کھولی نما کمرہ کرائے پر لے لیا جس میں ان کے ہمراہ تین دیگر افراد بھی رہتے تھے، جو دیو آنند ہی کی طرح فلم انڈسٹری میں قسمت آزمائی کے لئے ممبئی پہنچے تھے۔ سال بھر ملٹری سینسر آفس میں کلرک کی ملازمت کی، اس دوران چانس کے چکر میں مختلف اسٹوڈیوز کے راستوں میں جوتے گھستے رہے، آخر کار تنگ آکر بڑے بھائی چیتن آنند کے پاس چلے گئے جو اس وقت ہندستانی ڈرامہ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھے۔ انہوں نے دیو آنند کو اپنے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا اور دیو آنند نے چھوٹے موٹے کردار ادا کرنا شروع کردیے۔
فلمی کیرئیر
سال 1945 میں فلم ’ ہم ایک ہیں‘ سے بطور اداکار دیوآنند نے اپنے کیرئیر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ 1948 میں فلم ’ضدی‘ دیو آنند کے فلمی کیریئر کی پہلی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دیوآنند نے ہالی ووڈ کے تعاون سے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں فلم ’ گائیڈ ‘ بنائی، یہی وہ فلم تھی جس کے لئے انھیں عمدہ اداکاری پر بہترین اداکار کے پہلے فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مجموعی طور پر انھیں دو مرتبہ فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 2001 میں ایک طرف جہاں دیو آنند کوبھارت کی جانب سے پدم بھوشن سے نوازا گیا وہیں 2002 میں ہندی سنیما میں بہترین خدمات کے پیش نظر انہیں دادا صاحب پھالکے ایوراڑ سے بھی سرفراز کیا گیا۔
اداکاری کے ساتھ ساتھ دیو آنند نے ہدایت کاری میں بھی خوب پیسہ اور نام بنایا۔ انکی ہدایت کاری میں بننے والی فلموں میں افسر، ہم سفر، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر 44، فنٹوش، کالا پانی، کالا بازار، ہم دونوں، تیرے میرے سپنے، گائیڈ، اور جوئیل تھیف قابل ذکر ہیں۔
اداکارہ ثریا سے محبت
1950 میں فلم ’ افسر ‘ بنائی گئی اور اسی دوران انکی ملاقات اداکارہ ثریا سے ہوئی، اُس زمانے میں بمبئی کی فلمی صنعت میں دو اکارائیں ایسی تھیں جو کہ ہیروئن بھی تھیں اور اپنی آواز کا جادو ایسے جگاتی تھیں کہ ایک دنیا ان کی دیوانی تھی۔ ان میں ایک تو نور جہاں تھیں اور دوسری ثریا۔ ثریا نے بہت سی یادگار فلموں میں کام کیا۔ فلم ’ افسر‘ کے ایک گانے کی شوٹنگ کے دوران دیو آنند اور ثریا کی کشتی پانی میں ڈوب گئی۔ دیو آنند نے ثریا کو ڈوبنے سے بچایا اس کے بعد ثریا، دیو آنند سے بے انتہا محبت کرنے لگیں، لیکن ثریا کی ڈکٹیٹر قسم کی نانی کی اجازت نہ ملی۔ پہلے تو انہوں نے کہا کہ مذہب کی وجہ سے ان دونوں کی شادی نہیں ہوسکتی۔
بعض جگہوں پر لکھا ہے کہ دیو آنند نے اُسوقت یہ شرط بھی منظور کرلی کہ وہ مسلمان ہوجائیں گے لیکن نانی اور ثریا کی والدہ اس رشتے کے بیچ دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں۔ کہا جاتا ہے کہ انکے لیے دراصل ثریا سونے کا انڈا دینے والی مرغی کی طرح تھیں جس کے کام سے حاصل ہونے والی دولت ان دونوں خواتین کے منہ کو لگ گئی تھی اور وہ کسی طرح سے اس سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہ تھیں۔ بہر حال اس زمانے کے اصولوں اور روایات کی وجہ سے ثریا مجبور ہوکر رہ گئی اور یہ شادی نہ ہوسکی۔اسکے تقریبا 4 سال بعد دیو آنند نے اپنے زمانے کی مشہور کرسچن فلم اداکارہ کلپنا کارتک سے شادی کرلی۔
کالاپانی اور کالا کوٹ
1958 میں جب دیو آنند کی مدھو بالا کے ساتھ فلم ’کالا پانی‘ ریلیز ہوئی تو اس موقع پر انہوں نے کالے رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دیو آنند کالے کوٹ میں اتنے خوبصورت لگ رہے تھے کہ وہاں موجود ایک لڑکی انہیں اس روپ میں دیکھ کر اس قدر دنگ رہ گئی کہ اس نے مبینہ طور پر خودکشی کر ڈالی، اس واقعے کے بعد انہوں نے عوامی مقامات پر کالے رنگ کا سوٹ پہننا چھوڑ دیا تھا۔
56 سال بعد لاہور یاترا
لاہور سے دیو آنند 1943ء میں بمبئی گئے تھے جسکے بعد پہلی بار 1999ء میں یعنی 56 سال بعد ’سمجھوتا بس‘ کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے ساتھ لاہور آئے۔ جب انھوں نے لاہور کی سر زمین پر قدم رکھا تو جذبات کی شدت کی وجہ سے آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُسوقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ان کا خصوصی طور پر استقبال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصے بعد دیو آنند کی وفات کی خبر ملی تو نواز شریف بہت دیر تک خاموش اور غمگین بیٹھے رہے۔ وہ دیو آنند کو اپنا ذاتی دوست کہتے تھے، اور سمجھتے تھے کہ بھارت اور پاکستان کو قریب لانا ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ اپنی خود نوشت میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ” کالج کے پرانے طلباء کو میرے کالج میں آنے کی خبر ملی تو وہ سب کے سب دوڑے آئے۔ مجھ سے گلے ملے۔ مجھے پرانے نام سے پکارتے رہے، میں نے حمید اللہ خان برکی سے ملاقات کی جو میرے وقت میں گورنمنٹ کالج لاہور کے بہترین ہاکی پلیئر تھے۔ پرانی یادیں میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگیں۔
میں نے کالج کی پہلی منزل کی گیلری میں سب سے پہلے اوشاکرن کو اپنے پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا، اس نے ہاتھ میں کتابیں اٹھائی ہوئی تھیں اور ایک شرمیلی خاموش نظر ڈال کر میرے پاس سے گزر گئی۔ وہ ایک ساڑی میں ملبوس تھی۔ میں نے اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی مگر وہ خاموشی سے گزر کر چلی گئی۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح معصومیت تھی۔ میں نے جھجکتے ہوئے اور شرماتے ہوئے اسے ’ہیلو ‘ کہا مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ کالج کے برآمدے میں اس کی جوتی کی اونچی ایڑی کی آواز میں دیر تک سنتا رہا۔ پر وہ آواز بھی معدوم ہوگئی۔
Discussion about this post