انسان دوست بلقیس کی وفات نے ہر ایک کو رنجیدہ کیا ہوا ہے۔ وہ ہزاروں یتم اور لاوارث بچوں کی ماں تھیں۔ جن سے وہ اُسی شفقت سے پیش آتیں جیسے کوئی حقیقی ماں انہی بچیوں میں سے ایک رابعہ عثمان بھی ہیں۔ ایدھی ہوم کی وہ بچی جسے اس کے والدین اور دنیا نے ٹھکرادیا۔۔۔ لیکن ایدھی ہوم نے اسے اپنایا۔۔۔۔ عبدالستار ایدھی نے اپنا نام دیا اور بلقیس ایدھی نے اپنی آغوش میں لیا۔
آج 28 سال قبل ایدھی جھولے سے ملنے والی یہ ننھی پری ایک بااختیار اور باوقار لڑکی بن چکی ہیں۔ جو دنیا کی نمبرون شو کمپنی ”نائکی” میں اعلی عہدے پر فائز ہیں۔ رابعہ عثمان نے امریکا میں ڈسٹرکٹ اٹارنی آفس، یو ایس کانگریس، یو ایس سینیٹ میں انٹرن شپ بھی کی جبکہ یہی نہیں انہوں نے سائبر سیکیورٹی اور ڈیٹا پرائیویسی لاء میں بھی تعلیم حاصل کی۔
اٹھائیس سالہ رابعہ بانو عثمان نے اپنی تمام تر کامیابی کا سہرا بلقیس ایدھی کے نام کردیا، رابعہ بانو کہتی ہیں کہ بلقیس ایدھی کے وفات کے بعد پر وہ ایک بار پھر یتیم ہوگئی ہیں۔ رابعہ بانو نے بلقیس ایدھی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلقیس ایدھی نے مجھے پہچان دی، اپنی والدہ کے نام پر میرا نام رابعہ بانو رکھا، انہوں نے عورت کی طاقت سکھائی، خود مختاری کا سبق دیا، مجھے خواب دیکھنا سکھای، آزادی سے جینا سکھایا، اپنے مقصد کو کس طرح حاصل کرنا ہے اس کا درس دیا۔
آج وہ جو کچھ بھی ہیں بلقیس اور عبدالستار ایدھی کی وجہ سے۔ جبھی وہ اپنا تعارف اعتماد سے کراتی ہیں، انہوں نے مجھے پیار کرنے والے والدین سے ملایا جنھوں نے دنیا کی ہر آسائش اُن کے قدموں میں لاکر رکھ دی۔
چاہے وہ اعلی تعلیم یا پھر پر اعتماد شخصیت یہ ساری کامیابی بلقیس ایدھی کی بدولت ہیں، رابعہ بانو کا مزید کہنا تھا کہ بلقیس ایدھی اُن کے لیے ایک ہیرو تھیں۔ اُن کی طرح سارے یتیموں کی ماں اور پاور ہاؤس تھیں اور ایدھی صاحب کی جدائی کے بعد آج پھر رابعہ بانو کو لگ رہا ہے وہ دنیا میں بے سہارہ ہوگئی ہیں۔
اس خبر سے متعلق مزید پڑھیں:
Discussion about this post