صبح سویرے سوا سات بجے جب ٹوکیو اولمپکس ولیج میں کھلاڑیوں سے بھری بسیں وقفے وقفے سے آتیں تو ایک بوڑھے جاپانی شخص کو دیکھ کر ایتھلیٹکس حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتے۔ یہ اس شخص کا روز کا معمول تھا۔ جو سب کام کاج چھوڑ کر صبح صبح ٹوکیو اولمپکس ولیج کے مرکزی گیٹ کے سامنے کھلاڑیوں کا استقبال کر رہا ہوتا تھا۔ کم و بیش 2 گھنٹے تک یہ ڈیوٹی انجام دے کر بوڑھا شخص اپنی منزل کی طرف چل پڑتا۔ یقینی طور پر یہ ٹوکیو اولمپکس انتظامیہ کا کوئی رکن نہیں تھا اور نہ ہی کسی غیر ملکی ٹیم کا پرستار، بلکہ وہ ہر ٹیم کا خندہ پیشانی سے استقبال کرنے کے لیے اپنی تمام تر توانائی استعمال کرتا اور وہ یہ کام جب سے اولمپکس کا آغاز ہوا ہے، تب سے بلاناغہ کرتا رہا۔ کھلاڑیوں کے لیے اس کے ہاتھ میں تھاما ہوا پلے کارڈ توجہ کا مرکز بنتا گیا۔
آخر پلے کارڈ پر ایسا کیا لکھا ہے؟
ایک سادہ سا جملہ جو یقینی طور پر نئے دن کا آغاز کرنے والے کھلاڑیوں میں نئی روح پھونک دیتا ہے اور وہ کچھ یوں ہوتا ہے "صبح بخیر ایتھلیٹکس۔ اگر آپ میڈل نہ بھی جیت پائے تو کوئی بات نہیں آپ پھر بھی بہترین ہیں، اپنے آپ پر بھروسہ اور اعتماد رکھیں”۔
بوڑھا شخص آخر کون ہے؟
جاپانی میڈیا کے مطابق وہ ہر کھیل کا سب سے بڑا پرستار ہے اور بالخصوص ملک میں کرونا وبا کے بعد جب ٹوکیو اولمپکس پر منسوخی کے بادل چھانے لگے تو دوسرے جاپانیوں کی طرح وہ خاصا اداس ہوگیا تھا۔ مگر اب وہ اس بات پر مسرور ہے کہ ملک میں کھیلوں کا اتنا بڑا مقابلہ سج رہا ہے۔
کھلاڑیوں کی پذیرائی
بیشتر کھلاڑیوں نے اس بوڑھے شخص کی اس حوصلہ افزائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ بلکہ کئی نے اس کی تصاویر اتار کر اپنے ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ اس اجنبی پرستار کی وجہ سے ان کی کارکردگی میں نکھار آرہا ہے اور جب ان کی بس ٹوکیو اولمپکس ولیج کی طرف بڑھتی ہے تو وہ بے چینی کے ساتھ اس کی تلاش شروع کردیتے ہیں۔ ادھر کچھ پرستاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس بوڑھے شخص کو یقینی طور پر اس کی مثبت سوچ اور حوصلہ افزائی پر خصوصی طلائی تمغہ دیا جانا چاہیے۔ کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ یہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ جاپان جہاں دنیا کا خوبصورت ملک ہے وہیں اس کے عوام کے دل کی خوبصورتی بھی مثالی ہے۔
Discussion about this post