امریکی صدر کی سرکاری رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کو لے کر اب سابق خاتون اول میلانیا ٹرمپ اور مورخ مائیکل بیسکلوس میں لفظی جنگ چھڑ چکی ہے۔ میلانیا کا غصہ بھی ساتویں آسمان پر ہے جبکہ امریکی مورخ اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں، جنہوں نے میلانیا ٹرمپ پر صدیوں پرانی امریکی تاریخ کو مسخ کرنے کا الزام لگا دیا ہے۔ بلکہ وہ دو قدم آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ گئے کہ میلانیا نے امریکی تاریخ کو غائب کردیا ہے جس پر ہر امریکی صدر کو فخر تھا۔
میلانیا پر الزام تراشی کیوں؟
قصہ صرف یہ ہے کہ اگست 2020میں میلانیا ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں تزئین و آرائش کا کام کیا تھا، جس کے تحت اس حصے کو مزید خوبصورت بنانے کے لیے میلانیا نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کیا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں غیر ملکی سربراہان اورامریکی صدر مختلف اوقات میں ذرائع ابلاغ سے خطاب کرتے ہیں۔ یہ گارڈن گلاب کے بہترین پھولوں اور اقسام سے بھرا پڑا ہے۔
امریکی مورخ مائیکل بیسکلوس کی وجہ ناراضگی
امریکی مورخ نے دعویٰ کیا ہے کہ میلانیا ٹرمپ نے تزئین و آرائش کے نام پر اس گارڈن سے گلاب کے پھولوں کے پودوں کو بڑی تعداد میں ہٹایا۔ جس سے اس باغ کی صدیوں پرانی خوبصورتی ناصرف متاثر ہوئی بلکہ یہ امریکی تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ مائیکل بیسکلوس نے اپنے دعوے کی تصدیق کے لیے پہلی اور موجودہ باغ کی تصاویر بھی ٹوئٹس کی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ نادر، قیمتی اور نایاب قسم کے پودوں اور درختوں کی کٹائی سے باغ کا یہ حصہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ درحقیقت یہ ازسر نو سجاوٹ وائٹ ہاؤس ہی نہیں امریکی تاریخ کو بھی تباہ کرچکی ہے۔ حد تو یہ ہے میلانیا کے عمل سے امریکی تاریخ کے کئی عشرے غائب کردیے گئے ہیں۔
Garden next to office building: pic.twitter.com/4marRCyG5x
— Michael Beschloss (@BeschlossDC) August 7, 2021
Evisceration of White House Rose Garden was completed a year ago this month, and here was the grim result—decades of American history made to disappear: @dougmillsnyt pic.twitter.com/78OqjkoOPt
— Michael Beschloss (@BeschlossDC) August 7, 2021
میلانیا ٹرمپ کا جوابی وار
اب سارے الزامات پر بھلا میلانیا کیسے چپ رہ سکتی تھیں۔ جنہوں نے امریکی مورخ کی جم کر کلاس لی۔ ان کے آفس سے جاری جوابی ٹوئٹ میں ان کا کہنا ہے کہ مورخ نے غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ جس پر انہیں شرمسار ہونا چاہیے۔ گلاب کا یہ باغ اُسی طرح تروتازہ ہے، جیسا اسے ہونا چاہیے تھا۔ سابق خاتون اؤل کے مطابق مائیکل کی ٹوئٹس میں گارڈن کی تزئین و آرائش کا کام ختم کرنے سے پہلے کا منظر دکھایا ہے اور ان کا یہ عمل گمراہ کن ہے۔ گوکہ مائیکل پیشہ ور مورخ ہیں لیکن ان کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ قابل بھروسہ نہیں۔
.@BeschlossDC has proven his ignorance by showing a picture of the Rose Garden in its infancy. The Rose Garden is graced with a healthy & colorful blossoming of roses. His misleading information is dishonorable & he should never be trusted as a professional historian. https://t.co/LU243SANF1 pic.twitter.com/PuVOSjxx5w
— Office of Melania Trump (@OfficeofMelania) August 8, 2021
روز گارڈن کا قیام کب ہوا؟
سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور ان کی اہلیہ نے 1961میں اس باغ کی تعمیر کرائی تھی۔ صدر کینیڈی نے ماہرین سے کہا تھا کہ وہ یورپ میں پائے جانے والے باغات سے متاثر ہو کر کچھ پرکشش اور بہترین ڈیزائن تخلیق کریں۔ جبھی فیصلہ ہوا کہ یہاں پھولوں کی مختلف اقسام کو گلاب کے ساتھ ملایا جائے گا۔ اس کے بعد باغ پر باقاعدہ کام شروع کیا گیا اور چند برسوں کی محنت کے بعد اسے ’روز گارڈن‘ کا نام دیا گیا، جہاں غیر ملکی سربراہان آکر فرحت اور تازگی محسوس کرتے۔ کہا جاتا ہے کہ باغ کی تزین و آرائش میں کینیڈی کی شریک سفر جیکولیئن نے خاص دلچسپی دکھائی تھی۔
Removal of historic trees in White House Rose Garden made possible this camera shot during Republican convention a year ago this month: pic.twitter.com/CkgBdvY5fy
— Michael Beschloss (@BeschlossDC) August 7, 2021
امریکی ذرائع ابلاغ کا مؤقف
ٹرمپ سے ہر وقت خائف رہنے والا امریکی میڈیا اس معاملے میں میلانیا ٹرمپ کا ساتھ دینے پر مجبور ہے۔ کیونکہ سی این این نے گزشتہ اگست میں ہی یہ خبر نشر کی تھی کہ ’روز گارڈن‘ کو نکاسی آب کے مسائل کا سامنا ہے، اسی لیے اس کی اپ گریڈیشن بہت ضروری ہے۔ کچھ ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ بلند و بالا درختوں کی موجودگی میں انہیں کیمروں اور مائیک رکھنے کے انتظامات میں مشکلات ہوتی ہیں۔ بالخصوص ایسے میں جب کرونا وبا کے دوران ٹرمپ بریفنگ روم کے بجائے اسی باغ میں پریس کانفرنس کرتے تھے۔
Clearly agitated, Richard Nixon in White House Rose Garden (as it looked before its 2020 evisceration) with daughter Tricia, today 1974, day before announcing resignation: pic.twitter.com/5hNzNNqQn9
— Michael Beschloss (@BeschlossDC) August 7, 2021
امریکی عوام کی مہم
اس سلسلے میں سب سے دلچسپ پہلو امریکی عوام کا ہے، جنہوں نے جینچ ڈاٹ او آر جی کی پیٹشن پر اسے موضوع بنایا۔ جہاں اب تک 82 ہزار سے زائد افراد پیٹشن دائر کرچکے ہیں۔ جو نئی امریکی خاتون اؤل سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ کینیڈی کی شریک سفر اور سابق خاتون اؤل جیکولین کینڈی کے قائم کردہ باغ کی خوبصورتی کو دوبارہ بحال کرائیں۔
Discussion about this post