انسانی تاریخ میں بہت کم ایسے واقعات ہے جنہوں نے عالمی سطح پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں، تاہم کرونا کی موجودہ وبا نے جس پیمانے پر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اس کی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ دو عالمی جنگوں نے بھی دنیا کے ہر خطے کو متاثر نہ کیا تھا۔ سالوں لڑی جانے والی یہ جنگ بھی بتدریج پھیلی اور اپنے پیچھے تباہی کی داستان چھوڑدی، تاہم موجودہ وباء نے اپنےآغاز کہ تین ماہ میں ہی دنیا کہ پیشتر ممالک کو متاثر کیا اور سال ہوتے ہوتے پوری دنیا کا کوئی بھی خطہ اس وائرس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ یہ وبا ہمہ گیریت اور گلوبلائزیزیشن کو ایک خطرے کے طور پر سب کے سامنے لے آئی۔۔ یورپ جہاں ممالک کے درمیان سرحدیں مٹ چکی تھیں وہاں دوبارہ سے لکیریں واضح ہوگئیں۔ مختلف اقوام نے پھر اپنے آپ کو سرحدوں تک محدود کرلیا۔ ایسے میں عالمی تجارت اورسفری رابطوں میں بھی ایک بھونچال آگیا۔ پورٹ اور شپنگ سے متعلق سروسز فراہم کرنے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہیں کئی ایئرلائنز بھی دیوالیہ ہوگئیں ۔
ایئرلائنز کو درپیش چیلنجز
ایوی ایشن انڈسٹری کیلئے دوہزاربیس تباہ کن ثابت ہوابہت سی ائیر لائنز نے اپنے فضائی آپریشن محدود کئے تو بہت سی ایئر لائنز کو مکمل طور غیر فعال بھی ہونا پڑا۔ دنیا بھر میں مختلف فضائی کمپنیاں فلائیٹ آپریشن محدود کرنے پر مجبور ہوئیں تو طیاروں کے بیڑے میں بھی کمی کرنی پڑی۔ ان حالات میں خریدار نہ ہونے پر طیاروں کی فروخت ممکن نہ تھی جبکہ ہینگرز اور ایئرپورٹ چارجز کا بوجھ ایئر لائنز کیلئے گھاٹے کا ہی سودا تھا۔ ایسی صورت میں ایئرلائنز کو طیاروں کیلئے ایک محفوظ جگہ درکار تھی۔
طیاروں کا سیف ہاؤس
مشکل حالات میں جہازوں کو محفوظ رکھنے کیلئے امریکی ریاست ایری زونا میں جہازوں کو پارک کرنے کی سہولت فراہم کی گئی جہاں بیک وقت 16 ہزار طیاروں کو پارک کرنے کی سہولت دستیاب تھی۔ لیکن اس فیسلیٹی کی گنجائش پوری ہوچکی ہے ۔ آسٹریلیا کے صحرامیں بھی ایسی ہی ایک اور فیسیلیٹی قائم ہے جہاں طیاروں کو کچھ سالوں کیلئے محفوظ رکھا جارہا ہے کہ جب دنیا میں معمولات زندگی بحال ہونگے اورہوائی سفر کی صورت حال بہتر ہوگی تو ان طیاروں کو دوبارہ فضائی کمپنیوں کے بیڑے میں شامل کرکے پروازوں کیلئے بھیجا جاسکے گا۔
اندرون ملک سستی پروازیں
امریکا اورروس اورچین سمیت دیگر ممالک کی سرکاری اورنجی ایئر لائنز نے انٹرنیشنل فلائیٹ اآپریشن محدود ہونے پر ڈومیسٹک آپریشن کو توسیع دیدی تاکہ اندورن ملک پروازوں کے ذریعے ایئر لائن کے وسائل اور افرادی قوت کو بروئے کار لایا جاسکے۔ ایئر کرائے کم کرکے اور دیگر پروموشنل ایکٹیویٹیز کے ذریعے اندورن ملک سفر کیلئے مسافروں کو راغب کرنے میں کامیاب ہوئیں۔
ایمریٹس ایئرلائن کی بقا
تاہم کچھ ممالک ایسے بھی ہیں اتنے بڑے نہیں اورنہ جہاں زیادہ آبادی ہے تو ایسے ممالک کی ایئرلائنز کیلئے یہ مشکلات سے نکلنے کیلئے کوئی اورراستہ تلاش کرنا ضرورری تھا ۔۔ایسے ہی ایک ایئر لائن ایمریٹس ہے جو دبئی کے حکمران کی ملکیت اورنیشنل فلیگ کیرئیرہے۔ ایمریٹس ائیر لائن نے ڈومیسٹک فلائٹ آپریشن کی کمی کو پورا کرنے کیلئے نئی ڈیسٹی نیشن کو فلائیٹ آپریشن کا حصہ بنایا۔۔
کارگوکی ترسیل
ایمریٹس ایئرلائن نےاپنے پسینجرز ایئرکرافٹ کو کارگو ایئر کرافٹ میں تبدیل کرکے تجارتی سامان کی نقل وحمل کیلئے تیارکرلیا۔۔ متحدہ عرب امارات کیلئے دنیا بھر سے تجارتی سامان کی ترسیل کے ساتھ ساتھ کوڈ سے متعلق طبی آلات اورسامان کی ترسیل کے کام کا بھی آغاز کردیا۔
افرادی قوت کو متحرک کرنا
ان سارے اقدامات سے ایمریٹس ایئر لائن نے اپنی ورک فورس کو رواں دواں رکھ کر لے آف اور ڈآن سازنگ کو کم ترین سطح پر لے آئی اور یوں خراب معاشی حالات میں بڑٰی تعداد میں لوگ اپنا روزگار کھونے سے بچ گئے۔
ایمریٹس کی اس کامیاب اسٹوری سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ زندگی میں ہمیں کبھی ہم ہار نہیں ماننا چاہیئے ہر امتحان اپنے ساتھ کامیابی کی ایک نوید بھی لے کرآتا ہے، اگر آپ امتحان میں ثابت قدم رہتے ہیں تو کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے چیلنجز کو ٹھیک سے جانیں اور ان سے نمٹنے کیلئے مختلف زاویوں اور حکمت علمی کے تحت سوچ و بچار کریں ۔ ہمیں آوٹ آف بکس سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے ہمیں سب سے پہلے اس مشکل کے بدترین پہلو کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے کہ اس صورت حال میں بدترین کیا ہوسکتا ہے ۔ اس کے بعد ہم نقصان کو کم ازکم کرنے کیلئے سوچ وبچا رکرتے ہیں اورپھر نئے مواقعوں کی تلاش بھی کرتے ہیں۔ اور یہ ہی کیا ایمریٹس کے کرتا دھرتا لوگوں نے۔ اماراتی ایئر لائن نے اپنے فلائیٹ آپریشن کو رواں رکھنے کیلئے نئی منزلیں تلاش کیں اس کے ساتھ ساتھ تجارتی مقاصد اور کارگو کیلئے اپنے فلیٹ میں تبدیلیاں کیں اور نقصان کو کم سے کم سطح پر لانے کی کوشش کی اور یہ کوشش اس حد تک کامیاب رہی کہ ایئر لائن بجائے گھاٹے میں جانے کہ ان حالات میں بھی منافع میں رہی، البتہ گزشتہ سالوں کے تناسب سے منافع میں کمی ضرور واقع ہوئی۔
دیگر غیر ملکی ایئرلائنز کی طرح ایمریٹس بھی اگر نئے مواقع تلاش نہ کرتی تو شائد بہت بڑے پیمانے پر برٹش ایئر ویز کی طرح لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کیا جاتا۔ اور شائد ایئر لائن کو اپنی بقا کیلئے بھی جدوجہد کرنا پڑتی ۔
Discussion about this post