اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر نے عمران خان اور دیگر کے خلاف مسجد نبویﷺ واقعے سے متعلق مقدمات کے خلاف فواد چوہدری کی درخواست پر سماعت کی۔ جس کے تحت شہباز گل اور فواد چوہدری کی گرفتاری روکنے کے لیے حکم امتناع میں 12 مئی تک توسیع کردی گئی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اتوار کو عمران خان نے پھر کہا کہ عدالتیں رات 12 بجے کیوں کھلیں؟ عمران خان کو عدالتوں پر اعتماد ہے یا نہیں؟ سائل جلسوں میں کارکنوں کو کہہ رہا ہے کہ عدالتیں کمپرومائزڈ ہیں۔ عدالتوں کو سیاسی معاملات سے دور رہنا چاہیے۔ کسی کا عدالت پر اعتماد نہیں تو پھر ہم کیس نہیں سنیں گے۔ایسے میں کیس دوسرے بینچ کو بجھوادیتے ہیں۔آپ ہدایات لے کر بتائیں۔ عدالت لیٹ کیسز سن رہی ہوتی ہیں کیونکہ یہ ان کی ڈیوٹی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت کسی توہین آمیز مہم سے نہیں گھبراتی۔ عدالت نے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ سائل کون ہے؟ فیصلہ قانون کے مطابق کرتی ہے،کورٹ نے کل خود تقریر سنی ہے، آپ دیکھ لیں کہ عوام کو کیا پیغام دیا گیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے فالورز سمجھتے ہیں کہ مانچسٹر میں اُن کا کوئی فلیٹ ہے، سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ تصویر کا غلط تاثر دیا گیا، جس پر ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے کہا کہ چھوٹے موٹے شہری باتیں کرتے رہتے ہیں، آپ بڑے اور آئین کے محافظ ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اس کورٹ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ جو عدالت آئے اسکےحقوق کا تحفظ کرے۔
Discussion about this post