فیشن انڈسٹری ہمارے ماحول پر تباہ کن اثرات مرتب کررہی ہے یہ ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے ہر کوئی منہ موڑ رہا ہے۔ ورلڈ اکنامک فارم کی رپورٹ کے مطابق انسانی کاربن امیشن کا دس فیصد کی ذمہ دار کلاتھنگ انڈسٹری ہے، جب کہ یہ دوسری بڑی صارف ہے دنیا بھرمیں پانی کی سپلائی کی۔
اعداد وشمار کی روشنی میں
اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو تصویر بہت ہی زیادہ ڈراونی نظر آتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سن 2000 سے ملبوسات کی پروڈکشن دوگنی ہوگئی ہے۔ سال 2014 میں صارفین نے اوسط 60 فیصد زائد گارمنٹس مصنوعات کی خریداری کی با نسبت سال 2000 کے، جب کہ اس انڈسٹری میں ضیاں ، وسیٹیج، یا ڈمپنگ کا تناسب بھی دیگر صنعتوں سے بہت زیادہ ہے۔
تحقیق کے مطابق 2000 تک یورپ میں اسطا 2 کلیکشنز پیش کی جاتی تھیں جو 2011 میں پانچ ہوگئیں، جب کہ کچھ برانڈز نے زیادہ کلکیشن پیش کی زارا نے 24 کلکیشن جب کہ ایچ اینڈ ایم نے 12 کلیکشنز لانچ کیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دنیا بھرمیں کپٹروں کی کھپت اورپروڈکشن میں اضافہ ہوا اور بہت سارے ملبوسات چند بار کے استعمال کے بعد ہی کچرے کی نظر ہوجاتے ہیں۔ ہر سال 85 فیصد ٹیکسٹائل لینڈ فل سائٹس پر ڈمپ کی جاتی ہیں۔ اوسطا ہر سیکنڈ میں ایک ٹرک لینڈ فل سائٹ پر ٹیکسٹائل مصنوعات اورخام مال کو ڈمپ کرتا ہے، جسے پھر جلا کریا دیگر طریقوں سے تلف کیا جاتا ہے، جو مزید آلودگی کا سبب بنتا ہے۔ یہ اتنا زیادہ کچرا ہے جو سڈنی ہاربر کو بھر سکتا ہے۔
صرف یہی نہیں ٹیکسٹائل مصنوعات کو دھونے کے دوران 5لاکھ ٹن مائیکروفائبرز ہر سال سمندر میں شامل ہوتے ہیں اوریہ 50 ارب پلاسٹک کی بوتلیں جتنی مقدار ہے۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کی رپورٹ کے مطابق 35 فیصد مائیکرو پلاسٹک۔ ۔جو سمندر میں شامل ہوچکی ہے وہ سیتھیٹک ٹیکسٹائل یعنی پولیسٹر وغیرہ کی دھلائی کا نتیجہ ہے۔
مائیکرو پلاسٹک پلاسٹک کے وہ چھوٹے ٹکڑے ہیں جو بائیو ڈیگریڈ نہیں ہوتے مطلب یہ سمندر میں ہمیشہ رہیں گے کتنا بھی وقت گزر جائے یہ خود سے ختم نہیں ہوسکتے۔ سمندرمیں پلاسٹک آلودگی کا 31 فیصد سے زائد یہی مائیکر پلاسٹکس ہیں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری مجموعی انسانی کاربن امیشن کے 10 فیصد کی ذمہ دار ہے یہ کاربن امیشن اتنا زیادہ ہے کہ دنیا بھرکی فلائٹس اور جتنے بحری جہاز چل رہے ہیں، ان کے مجموعی کاربن امیشن سے بھی زیادہ ہے۔ آسان الفاظ میں دنیا بھر کا فلائیٹ آپریشن اورفریٹ آپریشن جو بحری راستوں سے نقل وحمل ہوتی ہے وہ بھی اتنی الودگی نہیں پھیلاتا جتنا ٹیکسٹائیل سیکٹر پیدا کرتا ہے، جب کہ فیشن انڈسٹری کی ٹریجیکٹری کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا دعوی ہے کہ 2050 تک کاربن امیشن کا مجموعی شیئر 26 فیصد تک پہنچ جائے گا۔
فیشن انڈسٹری ایگریکلچر کےبعد پانی کادوسرابڑا صارف
فیشن انڈسٹری دنیا کو دوسرا بڑا کنزیومر ہے، پانی کا اس کو آسان لفظوں میں سمجھیں تو ایک کاٹن کی شرٹ جو آپ پہنتے ہیں اس کی تیاری میں 700 گیلن پانی کا استعمال کیا جاتا ہے، 700 گیلن کو لیٹرمیں کنورٹ کریں تو یہ 2ہزار649بنتا ہے۔ یہ پانی اتنا ہے کہ ایک شخص ساڑھے تین سال تک روزانہ 8 کپ پانی پیئے۔ اب بات ہو جینز کی تو ایک جوڑا جینز کیلئے 2000 گیلن پانی کی ضرورت پڑتی ہے ، جو ایک شخص کہ روازنہ 8 کپ پانی دس سال تک پینے کیلئے کافی ہے اور یہ سب اس لئے ہے کہ کاٹن کا پودا بہت زیادہ پانی پیتا ہے۔ یہاں میں آپ کو ازبکستان کی مثال دوں گا کہ وہاں کپاس کی کاشت کی وجہ سے بحیرہ ارل جسے اسلامی تاریخ میں بحیرہ خوارزم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ وہ اپنے رقبےسے ایک چوتھائی سے بھی کم رہ گیا۔ ایک زمانے میں دنیا کی چوتھی سب سے بڑی جھیل محض 50 سالوں کے اندر ہی چند تالابوں تک سمٹ گئی ۔
ٹیکسٹائل اورکلاتھنگ انڈسٹری سمندری آلودگی کا بڑا سبب
فیشن انڈسٹری پانی کی آلودگی میں دوسرے نمبر میں پر ہے، ایک طرف تو سنتھیٹک اور پولیسٹر کی وجہ سے سمندرمیں مائیکرو پلاسٹک کی آلودگی کا سبب بن رہی ہے تو دوسری جانب ملبوسات کی رنگسازی کے بعد فاضل مادے دریاوں نالوں اورنہروں میں بہادیئے جاتے ہیں۔
کپڑوں کی رنگ سازی کے بعد جو آلودہ پانی پیدا ہوتا ہے اس سے بیس لاکھ اولمپک سائز سوئمنگ پولز کو بھرا جاسکتا ہے ۔یہی وجہ کے کہ فیشن انڈسٹری دنیا کی مجموعی آبی الودگی کے 20 فیصد کی ذمہ دار ہے۔ تو اگلی دفعہ آپ جب اپنے لئے کپڑوں کی خریداری کرنے جائیں تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آپ کے خریدے ہوئے ملبوسات کا ماحول پر کیا اثر ہوگا اور کیا ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم اس تباہی کوروکنے کیلئے اپنا لائف اسٹائل تبدیل کریں اور کپڑے خریدتے وقت اس معیار پربھی جانچیں کہ یہ کپڑے ماحول دوست ہیں یا نہیں۔
Discussion about this post