صائمہ نے گریجویشن کرلیا تھا اور گھر والے لڑکے کی تلاش میں تھے اور بہت جلد انہیں صائمہ کا دلہا بھی مل گیا۔ صائمہ مسرور ہے۔ کیونکہ وہ جانتی ہے کہ شادی کی رسم انتہائی سادگی سے ہوگی، وہ اپنے والدین پر بوجھ نہیں بنے گی۔ جس دن شادی ہوگی صرف 4 افراد دلہا کے گھر جائیں گے، جو صائمہ کا بیاہ کرکے واپس آجائیں گے۔ وہ کوئی فینسی یا مہنگا عروسی لباس زیب نہیں کرے گی بلکہ سادہ ہوگا۔ اس کے سسرال والوں نے کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ وہ بھی سادگی کے ساتھ بیاہ کرانا چاہتے ہیں۔ صرف صائمہ کے ساتھ ہی نہیں اس گاؤں کی ہر لڑکی کا یہ طرز عمل ہے۔
یہ کہانی ہے مقبوضہ کشمیر کے اُس گاؤں کی جو پہاڑوں اور سرسبز ہرے بھرے درختوں میں گھرا ہے۔ گاندریل شہر سے 28کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں بابا وائل جہاں جہیز لینے اور دینے پر مکمل پابندی ہے۔ جہاں کچے پکے مکانات ہیں، جبکہ کھیتی باڑی کمائی کا ذریعہ ہے۔
گاؤں بابا وائل میں لوگ عام سی زندگی گزارتے ہیں۔ ایک زمانے میں یہاں شاہانہ شادیاں ہوتی تھیں، پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا لیکن پھر سب کچھ بدل گیا۔ کہا جاتا ہے کہ شادی کے جشن اور جہیز کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث لوگ قرض لینے پر مجبور بھی ہوئے۔
جہیز کیوں مسئلہ بنا؟
ایک غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گاؤں بابا وائل کے بزرگ کہتے ہیں کہ ابتدا میں خواتین کو ان کے سسرال والوں کے مطالبات کی وجہ سے بہت سے جسمانی اور نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ جو والدین کے لیے پریشانیوں کا باعث بنتے جارہے ہیں۔ بہت سی لڑکیاں، جن کے والدین مطلوبہ جہیز برداشت نہیں کر سکتے تھے، انہیں دباؤ کے سامنے جھکنا پڑا یا پھر خودکشی کی کوشش کرنی پڑی یا طلاق کی۔ وہ اپنے سسرال والوں کے مطالبات سے کی وجہ سے نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتی چلی گئیں۔ایک زمانے میں مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی شادی کی اوسط ً عمر صرف 25 سے زائد تھی، جو بڑھتے بڑھتے 40سال تک پہنچ گئیں۔ مسئلہ وہی والدین کی جانب سے جہیز کا اکٹھا نہ کرنا۔
ماضی میں شادی کی رسومات
بابا وائل میں شادی کے رسم و رواج لڑکی والوں کے لیے ہمیشہ اتنے بوجھل نہیں تھے۔ 19 ویں صدی کے وسط میں بھی گاؤں میں شادیاں سادگی کے ساتھ ہوتیں -دلہا کے خاندان کو جہیز بالکل ادا نہیں کیا جاتا تھا۔اُس وقت کی روایت یہ تھی کہ منگنی پر دلہا کے خاندان کی طرف سے 11 روپے ایک گلاس پانی میں "محبت” کا نام دے کرپیش کیا جاتا۔ اہل خانہ اپنے بچوں کے درمیان رضامندی اور شادی کا بندوبست کرتے۔ اس رقم کو آج کی اقدار میں تبدیل کرنا مشکل ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ اخراجات پانچ سو سے ہزار روپے تک ہوتے۔ ایک جوڑے کی منگنی پر، دلہا کے خاندان کی طرف سے دلہن کو 51 روپے دیئے جاتے۔ جب نکاح نامہ پر دستخط ہوتے ہیں تو دلہا کے والد سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ شادی کے مہمانوں کے لیے کھانا فراہم کرنے کے لیے دلہن کے والد کو 40 کلو چاول اور 30 کلو گوشت دیں گے۔
جہیز کے خلاف ایکشن
بڑھتے ہوئے گھریلو پرتشدد واقعات کے پیش نظر 1985میں گاؤں کی انتظامیہ اور بزرگوں نے ٹھوس قدم اٹھائے۔ شاہانہ شادیوں اور جہیزوں کی ممانعت کی۔ یہ شرط رکھی گئی کہ جو بھی نئے قوانین کی خلاف ورزی کرے گا، اس سے قطع تعلق کرلیا جائے گا۔ یہاں تک کہ گاؤں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت تک نہیں ملے گی۔ نتیجے کے طور پر، جہیز کا مطالبہ کرنا ایک سنگین جرم تصور کیا جانے لگا۔
کوئی خلاف ورزی کرتا تو اس سے ہر قسم کا تعلق توڑ لیا جاتا۔ 2004 میں، گاؤں کے بزرگوں نے ایک نئی دستاویز کا مسودہ تیار کیا، جس میں امام اور تین بزرگوں نے دستخط کیے، تاکہ 1985 میں متعارف کرائے گئے اصول کو باقاعدہ شکل دی جا سکے۔اس نئی دستاویز میں ایک بار پھر دلہا کے خاندان کو پابند کیا گیا کہ وہ دلہن کے گھر والوں سے جہیز کا مطالبہ کرنے کے بجائے شادی کے اخراجات کے لیے کم و بیش 50 ہزار روپے ادا کرے گا۔
دلہا اور ولی کے درمیان رقم پر ایک معاہدہ طے پایا جاتا ہے، گاؤں کا امام، نکاح کی تقریب کے دوران دلہن کے سرپرست کے طور پر کام کرتے ہیں۔۔ اگر دلہا کا خاندان غریب ہے تو تحفہ نقد ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے – اس کی بجائے سامان میں ادائیگی کی جا سکتی ہے۔ دلہن کے خاندان کو کچھ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
دلہن کو بطور مہر 20ہزار روپے دیے جاتے جو اس کی ہی ملکیت تصور ہوتی ہے۔جبکہ اتنی ہی رقم اضافی دے کر اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ اس سے دلہن عروسی ملبوسات خرید سکے۔ جبکہ دلہن کے دیگر اخراجات کے لیے لگ بھگ 13 ہزا رروپے بطور تحفہ دیے جاتے ہیں۔
جہیز مخالف قانون کا فائدہ
گاؤں والوں کے مطابق جب سے یہ قوانین نافذ کیے گئے، اُس وقت سے اب تک گھریلو تشدد، خودکشی یا سسرال والوں کے درمیان لڑائی کا ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 32 سالہ سید جاوید شاہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ’نکاح بہت سادہ طریقے سے کرنا میری شدید خواہش تھی۔ شادی کو 5 سال ہوگئے۔ میں نے اپنی بیوی سے کچھ مانگا یا وصول نہیں کیا۔‘ مقامی لوگ جوش و خروش کے ساتھ گاؤں کے رسم و رواج کی پیروی کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گاؤں کے نوجوان بھی طے شدہ قوانین پر ہنسی خوشی عمل کرتے ہیں۔
خواتین کا موقف
اقرا الطاف کا کہنا ہے کہ وہ 9 سو روپے سے زیادہ حق مہر نہیں چاہتی۔ وہ اپنے آپ کو اس اعتبار سے خوش قسمت قرار دیتی ہے کہ اس کا تعلق اُس گاؤں سے ہے جہاں جہیز کا اس کے باپ دادا کے زمانے سے بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں لڑکیوں کو انتخاب کی آزادی ہے۔ اقرا کے مطابق جہیز کے نظام نے عورتوں کو چیزوں میں تبدیل کر دیا ہے اور شادیوں کو ایک کاروبار کی طرح سمجھا جاتا ہے، جہاں آپ محبت اور احترام کے بجائے چیزوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔
گاؤں والوں نے اپنے جہیز مخالف موقف کی کامیابی کو لڑکیوں اور لڑکوں کو تعلیم دینے کی وجہ سے مساوی اہمیت پر ڈال دیا۔ گاؤں کے مرد اور لڑکے بھی ہدایات پرعمل کرتے ہیں کہ جہیز کے نظام سے بچنا اتنا ضروری کیوں ہے اوروہ چاہتے ہیں کہ یہ پابندی مقبوضہ کشمیر کے دوسرے حصوں تک پہنچے۔ حالیہ برسوں میں تین لڑکیوں نے گاؤں سے باہر شادی کی اور انہیں اپنے روایات اور قوانین کا پابند کرایا۔ اسی طرح مرد بھی کچھ ایسا ہی کرتے ہیں۔
Discussion about this post