ایک اندوہناک واقعہ جس کی بازگشت اب سوشل میڈیا سے ٹی وی اسکرینز پر آچکی ہے اور وہ ہے ناظم جوکھیو کا سفاک قتل جسے صرف اس لیے مار دیا گیا کیونکہ اس نے با اثر شخصیات کی نایاب پرندوں کو شکار کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی تھی۔ ناظم جوکھیو کا قصور صرف یہ تھا کہ اُس نے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن سندھ اسمبلی اویس جام کے بیرون ملک سے آئے ہوئے مہمان کے ساتھہ ویڈیو ج بنائی، جس میں غیر ملکی مہمان نایاب پرندے کے شکار میں محو تھے۔اس دوران ناظم جوکھیو کو ویڈیو ریکارڈ کرتے ہوے دیکھ لیا گیا اور اسے دھمکی دی گئی کہ وہ یہ ویڈیو اپ لوڈ نہ کرے۔ ناظم جوکھیو نے اس دھونس دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ویڈیو پھر بھی سوشل میڈیا پر جاری کردی۔ جس کے بعد ناظم جوکھیو نے ایک اور ویڈیو جاری کی جس میں انہوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ اُنہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں لیکن وہ ڈرنے والے نہیں۔ ناظم جوکھیو نے حکام سے مدد کی درخواست بھی کی۔ منگل کی شب ناظم جوکھیو کو بھائی کے ساتھ رکن اسمبلی اویس جام کے فارم ہاؤس ملیر میں بلایا گیا۔ جہاں اُس کے بھائی کے مطابق مبینہ طور پر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جس کے بعد پولیس کو ناظم جوکھیو کی لاش بدھ کو جام گوٹھ سے ملی۔ میڈیکل رپورٹ میں ڈاکٹرز نے بتایا کہ ناظم جوکھیو کے جسم پر 35 زخم کے نشانات تھے۔ البتہ ڈاکٹرز نے موت کی وجہ کو چھپائے رکھا۔ ناظم جوکھیو کے اہل خانہ نے قومی شاہراہ پر احتجاج کیا اور رکن اسمبلی کی گرفتاری کا مطالبہ داغا۔
Yet, another has been killed by feudal lords in Sindh to impress their Arab friends ( probably visiters for hunting). Nazim was killed by a feudal lord from Shikarpur for "the heinous crime” of making a Facebook live video 👇. #JusticeForNazimJokhio pic.twitter.com/20RHRe3YXP
— Syed Aamir Advocate ⚖️ (@syedamirhussa16) November 4, 2021
Nazim Jokhiyo has been brutally killed just because he made a video clip of those unknown Arabs during there activity in his city? #JusticeForNazimJokhio pic.twitter.com/8jmfGiD1Iz
— Dr. Nazia Memon (@NaziaMemon01) November 4, 2021
اب تک کیا کارروائی ہوئی؟
سوشل میڈیا پر ’جسٹس فار ناظم جوکھیو‘ کا ہیش ٹیگ گردش میں آیا تو سندھ حکومت کو بھی ہوش آیا، جبھی صوبائی حکومت کے نمائندوں سعیدغنی اور امتیاز شیخ نے ناظم جوکھیو کے لواحقین سے ملاقات کی اور انہیں انصاف دلانے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے بھی اس قتل کا نوٹس لیا جبکہ جام اویس جوکھیو نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے بھی کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک تصویر وائرل ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جام اویس بڑے پرسکون اور آرام دہ انداز میں بیٹھے ہیں جبکہ تھانے کے عملے کا رویہ بھی انتہائی دوستانہ ہے۔ اس موقع پر جا م اویس کے محافظ بھی اُن کے عقب میں ہیں۔ جام اویس کو 3دن کے لیے پولیس کے ریمانڈ میں دے دیا گیا ہے۔
ماضی میں بھی بے قصوروں کا قتل عام
ناظم جوکھیو کا قتل کا کوئی پہلا کیس نہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ کیسے با اثر افراد کس طرح سے قانون کو روندتے ہوئے کمزور اور لاچار افراد کو اپنی طاقت سے کچلتے ہیں۔ عدالتیں مجرمان کو سزائیں دیتی ہیں تو مقتولین کے خاندان دیت کے تحت اس معاملے کو عدالت سے باہر ہی حل کرلیتے ہیں۔2015 میں آئیں کچھ تصاویر ذہنوں میں نقش ہیں جس میں شاہ رخ خان جتوئی جیل کے اندر موج مستیاں کرتے ہوئے نظر آیا تھا۔ یہ وہی شاہ رخ ہے جو سزائے مو ت کا منتظر ہے، جس نے نوجوان شاہ زیب کو محض اس بنا پر قتل کردیا تھا کیونکہ اُ س نے شاہ رخ جتوئی کو بہن کے ساتھ چھیڑ خانی پر منع کیا تھا۔ رواں سال صحافی اجے للوانی کو سکھر میں قتل کردیا گیا۔اب تک ان کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں۔ کون بھول سکتا ہے نقیب اللہ محسود کو، جن کے قتل کا الزام ایس ایس پی راؤ انوار پر تھا لیکن یہ کیس کس موڑ پر کھڑا ہے، کسی کو علم نہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے رکن اسمبلی مجید اچکزئی نے گاڑی سے ٹریفک اہلکار کو کچل دیا تھا لیکن مختلف سماعتوں کے بعد وہ بھی اس مقدمے سے رہا ہوچکے ہیں۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ بااثر شخصیات کے ہاتھوں ہونے والے واقعات پر قانون ذرا کم ہی حرکت میں آتا ہے۔
Discussion about this post