اسلام آباد ہائی کورٹ میں نور مقدم قتل کیس کی سماعت جسٹس عامر فاروق نے کی۔ اس موقع پر نور مقدم کے والدین کے وکیل شاہ خاور کا کہنا تھا کہ یہ انتہائی خوف ناک قتل ہے، جس پر ملزم ظاہر جعفر کے والدین کو کسی بھی صورت ضمانت نہیں ملنی چاہیے۔ ان کے مطابق اس سارے معاملے میں شواہد اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ملزم، والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم سے رابطے میں تھا اور وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ ٹرائل میں جو شواہد لائیں گے، اس پرجرح کریں گے۔ ان کے مطابق کیس میں غیر ضروری گواہان کو شامل نہیں کیا، صرف 18گواہ ہیں، جن میں 2نجی گواہان ہیں باقی سرکاری۔ انہوں نے اس بات کا بھی عدالت کو یقین دلایا کہ بہت جلد ٹرائل مکمل کرلیا جائے گا۔ اسی لیے ضمانت نہ دی جائے۔ اس موقع پر عدالت کو پولیس حکام نے بتایا کہ نور مقدم کے اسمارٹ فون کا پاس ورڈ نہیں مل پارہا۔ جبھی اس کی فرانزک رپورٹ باقی ہے۔ جس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ بازار میں بہت ماہر ہیں،بدقسمتی سے کہنا پڑ رہا ہے کہ بازار سے کوئی ہیکر ہی پکڑ لیں جو فون کھول سکے۔
پولیس کا کہنا تھا کہ تھیراپی والے 8بج کر 6منٹ پر پہنچے اور پولیس اس کے بعد10بجے۔ جس پر جسٹس عامر فاروق نے دریافت کیا کہ اس کاتو یہ مطلب ہے کہ پولیس 2گھنٹے دیر میں پہنچی۔ ملزم ظاہر جعفر کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ عبوری چالان نامکمل ہے اور اس اسٹیج پر ضمانت سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ ملک میں کریمنل کیسز کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ دیکھتے ہیں کیسے شواہد کو ایک دوسرے سے جوڑنا ہے۔ عدالت نے ذاکر جعفر اور ان کی بیگم عصمت آدم جی کی جانب سے دائر ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ ظاہر جعفر کے والدین نے ڈسٹرکٹ کورٹ سے ضمانت رد ہونے کے بعد اس فیصلے کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
Discussion about this post