سپریم کورٹ نے استغاثہ سے ظاہر جعفر کی والدہ کے خلاف ثبوت مانگ لیے ہیں ۔ ظاہر جعفر کے والدین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی جس میں ہائی کورٹ نے دونوں ملزمان کی ضمانت کی درخواست خارج کردی تھی۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس منصور علی شاہ نے استغا ثہ سے یہ بھی دریافت کیا کہ وہ بتائے کہ کہاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی کا نام ضمانت کی خارجیت مِیں مینشن کیا ہے۔ مزید یہ کہ سپریم کورٹ کے ججز نے نور مقدم اور ان کے خاندان سے تعزیت بھی کی۔ سپریم کورٹ نے اگلی سماعت 18 اکتوبر تک ملتوی کردی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کا تفصیلی فیصلہ
اسلام آباد ہاِئیکورٹ نے ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی کے خلاف ضمانت خارج کردی تھی۔ دونوں والدین نے اپنے بیٹے کے جرم کے اقدام سے لا تعلقی کا اظہار کیا اور کہا کی انہیں نور مقدم کے اغوا کیے جانے کا علم نہیں تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جو چالان پولیس نے پیش کیا اس میں اس بات کو ثابت کیا کہ دونوں والدیں اپنے بیٹے کے جرم سے آگاہ تھے اور انھوں نے کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھایا جس سے ان کا بیٹا ظاہر جعفر یہ جرم نہ کرتا۔مزید یہ کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کی روشنی میں اس بات پر زور دیا کہ قتل کے جرم میں معاون کا بھی اتنا ہی قصور ہوتا یے جتنا قاتل کا۔ کورٹ نےظاہر جعفر کا اقبال جرم بھی تفصیلی فیصلے میں شامل کیا کہ جس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے اپنے والد کو نور کے اغوا کی خبر سے آگاہ کردیا تھا۔ نا صرف یہ بلکہ ظاہر جعفر کے لاہور والے گھر میں موجود سیکیورٹی گارڈ نے بھی آگاہ کیا تھا کہ ظاہر جعفر کے والد اس پوری صورتحال سے واقف تھے۔
نور مقدم کیس کا پس منظر
نور مقدم جن کی عمر 27 تھی ، انہیں 20 جولائی کو بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ کرائم سین پر ملنے والی اشیا سے پتا چلا تھا کہ نور کے سر کو تیز چھری سے قلم کیا گیا تھا۔ اس قتل نے پورے ملک مِیں سوگ اور ساتھ ساتھ غصے کا عالم پیدا کردیا تھا اور ہر کوئی نور کے قاتل کے خلاف برسر احتجاج تھا کہ اسے عبرت کا نشانہ بنایا جائے۔ نور کے والد ایک سابق پاکستانی ڈپلومیٹ بھی رہ چکے ہیں ۔
Discussion about this post