شاید ہی کوئی جنریشن ہو۔ جس نے ٹیکنالوجی میں اتنی تبدیلی دیکھی ہو جتنی 90 کی دہائی کے لوگوں نے دیکھی۔ عمر کے بڑھتے ہر سال کے ساتھ ہم نے دنیا کو تیزی سے بدلتے دیکھا ہے لیکن وہ کمپنیز جو ایک دور میں مارکیٹ لیڈر تھیں۔ جائنٹس کہلاتی تھیں۔ وہ اچانک غائب کہاں ہوگئی؟ نوکیا جو دہائیوں تک موبائل فون انڈسٹری پر راج کرتا رہا؟ کہاں غائب ہوگیا؟
کوڈک اور فوجی کے تو نام بھی شاید اب لوگوں کو یاد نہ ہوں۔ کیا ہوا ان کمپنیز کے ساتھ؟
یہ 3310،3300، 1100 اور ایسے ڈھیروں موبائلز۔ جب تک کی پیڈ فونز کا دور رہا۔ نوکیا کا کوئی مقابل دور دور تک دکھائی نہ دیالیکن پھر اچانک سب بدل گیا۔ سال 2007 میں ایپل کے سی ای او اسٹیو جابز نے آئی فون لانچ کیا۔ ایک ایسا فون جس میں کی پیڈ ہی نہیں تھا۔ صرف ایک ہوم بٹن اور باقی پورا فون ہی اسکرین تھا۔ ایک ایسا فون جس سے کوئی بھی کام کرانا آپ کی ایک فنگر ٹپ کی دوری پر تھا۔ جس کی اسکرین آپ کے چھونے پر سکڑ سکتی تھی۔ بڑھ سکتی تھی۔ جسے آپ فنگر ٹپس پر آپریٹ کرسکتے تھےاور اس نئی ایجاد نے سب کچھ بدل دیا۔
آج جو آپ سب کے ہاتھوں میں ٹچ فونز دیکھتے ہیں۔ یہ وہی انقلاب تھا جو اسٹیو جابز نے برپا کیا۔ ٹیکنالوجی بدل گئی لیکن نوکیا کو اپنی کامیابی کا خمار تھا یا مارکیٹ پر راج کا نشہ۔ یہ کمپنی بدلتی ہواؤں کو بھانپ نہ سکی۔ نوکیا اپنی پرانی کی پیڈ ٹیکنالوجی پر ہی ڈٹا رہا اور دنیا بہت آگے نکل گئی۔ لیکن کیا وجہ تھی۔ کیوں نوکیا ان بدلتی ہواوں کو نہیں بھانپ سکا؟ کیوں نوکیا نے ٹچ اسکرین ٹیکنالوجی تک آنے میں اتنی دیر لگا دی؟
اس کا جواب جاننے کیلئے پہلے نوکیا کی تاریک جاننا ضروری ہے۔ وہ سوچ جاننا ضروری ہے۔ جس نے نوکیا کو موبائل فون انڈسٹری میں ورلڈ لیڈر بنا دیا۔
وہ سوچ تھی۔ "جدت” کچھ نیا کرنے کی جستجو۔ یہی وہ سوچ تھی جس کی بنا پر نوکیا نے 1982 میں پہلا کار فون بنایا۔ ایک ایسا فون جس سے آپ چلتی گاڑی میں بات کرسکتے تھے۔ "موبیرا سینیٹر” یہ اس دور کی کمال ایجاد تھی۔ بغیر کسی تار یا لائن کے آپ فون پر بات کرسکتے تھے۔
پھر 1987میں تو نوکیا نے کمال ہی کردیا۔ پہلا موبائل فون بناڈالا۔ اس فون کا نام تھا "موبیرا سٹی مین”۔ اس کے بعد نوکیا نے پھر کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ایک کے بعد ایک جدید فون۔ نوکیا وقت کے ساتھ موبائل فون کو چھوٹے سے چھوٹااور ہلکے سے ہلکا کرتا گیا۔ ایک وقت میں جو لوگ فون ہاتھ میں اٹھائے پھرتے تھے۔ اب جیبو میں لئے گھومنے لگے۔
صرف یہی نہیں نوکیا نے ترقی پذیر ممالک کی مارکیٹ کو ٹارگٹ کیا۔ فون اتنے سستے بنائے کہ یہ ہر فرد کی پہنچ میں پہنچ سکیں۔ اس جدت کی سوچ کے ساتھ نوکیا اتنا آگے نکل گیاکہ موبائل فون مارکیٹ میں اس کا کوئی مقابل ہی دکھائی نہیں دیتا تھا۔
جیسے ایک ضمانے میں واشنگ پاوڈر کا مطلب "سرف” تھا اسی طرح موبائل فون کا مطلب "نوکیا” بن گیا۔ اس حد تک مارکیٹ پر راج کرتی تھی یہ کمپنی یہی وجہ تھی کہ2007میں ایپل آئی فون کے لانچ کے ایک سال بعد تک بھی مطلب 2008میں نوکیا 468.4 ملین ہینڈ سیٹ کی فروخت کے ساتھ دنیا کا نمبر ون سیلر تھالیکناچانک سب کچھ بدل گیا۔ آہستہ آہستہ ٹیکنالوجی بدلنے لگی۔ آئی فون کے ساتھ ہی جیسے ٹچ اسکرین فونز کی لائن لگ گئی اور بدلتی ٹیکنالوجی کی اس بھیڑ میں نوکیا کے فون کہیں کھو سے گئے۔
یہاں سوال پھر وہی آتا ہے۔ اتنی جدت کی سوچ رکھنے والی کمپنی ہونے کے باوجود بھی کیوں نوکیا بدلتی ہواوں کو نہیں بھانپ سکا؟ کیوں نوکیا نے ٹچ اسکرین ٹیکنالوجی تک آنے میں اتنی دیر لگادی؟ تو ایسا باالکل نہیں ہے۔بلکہنوکیا تو ایپل نے 7سال پہلے ہی ٹچ اسکرین فون بناچکا تھااورآئی پیڈ تو نوکیا نے 1990میں ہی ایجاد کردیا تھا۔ نوکیا آج بھی یہی دعویِ کرتا ہےاوراصل میں یہی سوچ ان کی ناکامی کی وجہ بنیوہ یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ بھائی دنیا بدل چکی ہے۔ یہ ہارڈ ویئر کا نہیں بلکہ سافٹ ویئر کا گیم ہے۔ دنیا اب ہارڈ ویئر سے سافٹ ویئر پر شفٹ ہورہی تھی۔ ایپل نے آئی فون کی شکل میں صرف ایک ٹچ فون متعارف نہیں کرایا۔ انہوں نے ٹیکنالوجی ہی بدل دی تھی۔ وہ اپنا الگ آپریٹنگ سسٹم لے کر آئے۔
آئی او ایس۔ جس میں ڈھیر ساری ایسی ایپلی کیشنزموجود تھیں جنہوں نے دنیا بدل کر رکھ دی۔ واٹس ایپ، اسکائپ زوم۔ اور اس طرح کی ڈھیر ساری ایپس استعمال کرنے کا اس وقت ایک ہی ذریعہ تھا۔ اور وہ تھا "آئی فون” امریکا اور برطانیہ کی مارکیٹ پر آئی فون نے قبضہ جمالیا۔ اوربچا کچا کام گوگل نے "اینڈرائیڈ”لانچ کرکے پورا کردیا۔ بطور مارکیٹ لیڈر نوکیا کو بھی ایپل اور گوگل کی طرح اپنا آپریٹنگ سسٹم لانچ کرنے کی ضرورت تھیلیکن وہ اپنی ہارڈ ویئر کو ہی اپنی کوالٹی کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ تب ہی نوکیا موبائلز کے لئے یہ کہاوت مشہورتھی کہ یہ تو پھڈوں میں استعمال ہونےوالے موبائل ہیں۔
نوکیا اپنی اسی سوچ پر اٹکا رہااور2010تک ایپل اسٹور پر ایپس کی تعداد 3 لاکھ تک جاپہنچیجب کہگوگل پلے اسٹور پر ایک لاکھ 50 ہزار ایپس آفر کررہا تھا۔لیکنکیا نوکیا کے پاس اپنا کوئی آپریٹنگ سسٹم موجود نہیں تھا؟۔ موجود تھا۔ نوکیا کوئی ہلکی کمپنی نہیں تھی۔یہ ٹیکنالوجی وہ سالوں پہلے ہی بناچکے ہیں۔ ان کے پاس اپنے دو آپریٹنگ سسٹم موجود تھے۔ "میگو اور سمبین”لیکنشاید وہ صحیح وقت پر انہے استعمال نہیں کرسکا۔ کیوں کہ تب تک اینڈرائیڈ گیم پلٹ چکا تھا۔
گوگل "انٹرڈیپینڈیبل پالیسی”پر چلا گیا مطلب ہارڈ ویئر تمہارا سافٹ ویئر ہمارا اورآئی فون کو چھوڑ کر تمام کمپنیز نے اپنے پراڈکٹس میں پلے اسٹور کو جگہ دے دی۔ ایسے میں نوکیا نے ایک بار پھر جدت کی جانب بڑھنے کا فیصلہ کیااور مائکروسافٹ سے جاکر ہاتھ ملالیا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر گیم سافٹ ویئر کی ہے۔ تو سافٹ ویئر انڈسٹری میں مائکروسافٹ سے بڑی کمپنی تو کوئی ہے ہی نہیں۔ البتہان کی یہ چال بحی زیادہ کارآمد ثابت نہ ہوسکی کیوں کہمائکروسافٹ نے جو انٹرفیس بنایا وہ ایپلی کیشنز کے لئے زیادہ کارآمد نہیں تھا۔
جس نے نوکیا کو اس نہج تک پنچادیا کہ2013 میں مائکروسافٹ نے 7.2 ارب ڈالر میں نوکیا کو خریدلیا۔ اور دو دہائیوں تک موبائل فونز کی دنیا پر راج کرنے والی کمپنی مائکروسافٹ دی اینڈ ہوگئی۔ ویسے اس ڈیل کے پیچھے بھی بڑی سازشی نظریات موجود ہیں۔ بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ مائکروسافٹ خود موبائل مارکیٹ میں آنے کے لئے نوکیا خریدنا چاہتا تھا جس کے لئے اس نے پہلے اپنا سی ای او نوکیا میں بٹھایا اور پھر سستے داموں کمپنی ہتھیالی۔
Discussion about this post