بدھ کو نیب آرڈینس آنے کے بعد اپوزیشن جہاں اس کی بھرپور مخالفت کررہی ہے وہیں وفاقی وزرا اور مشیران اس کے دفاع میں ہیں۔ اپوزیشن کو اس بات کا شکوہ ہے کہ آرڈینس کے سلسلے میں اُن سے کسی قسم کی کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔حکومت کا موقف ہے کہ اپوزیشن سے اُسی صورت میں گفت و شنید ہوسکتی ہے اگر وہ اپنااپوزیشن لیڈر تبدیل کریں۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پر بدعنوانی کے مختلف الزامات ہیں تو پھر اُن سے کیسے مشاورت کی جائے۔
نئے نیب آرڈینس میں ہے کیا؟
اس آرڈیننس میں کاروباری شخصیات، صوبائی، وفاقی کابینہ کے لیے گئے فیصلے بھی نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئیں گے۔ پہلے اگر ایک بیوروکریٹ یا وزیر کسی ”اچھی نیت ” سے کوئی ترقیاتی کا م کا آغاز کرتا تھا اور وہ آگے جا کر کسی بھی وجہ سے پراجیکٹ تعطل کا شکار ہوجاتا تو اس پر آنے والی مالی نقصانات کا ذمہ دار وزیر یا افسرکو ٹھہرایا جاتالیکن اس آرڈینس کے تحت بظاہریقین دہانی کرائی ہے کہ کارروائی اُس وقت نیب کرسکتا ہے جب اُس کے پاس کوئی ایسے شواہد ہوں، جس سے اس وزیر یا افسرکو بدعنوانی کا مرتکب پایا گیا ہو۔ دوسری جانب نیب کسی ٹیکس یا بینکنگ سے منسلک کسی کیس پر ریفرنس فائل نہیں کرسکتا۔ ان کیسز کے لیے وہی ادارے پہلے سے شدہ قانون کے تحت کارروائی کریں گے۔ یب پر ہمیشہ سی یہی تنقید رہی کہ وہ وائٹ کالر کرائمز پر بہت کمزور گرفت رکھتا ہے۔ بالخصوص پیچیدہ معاملات کی تفتیش میں طویل عرصہ لگتا ہے۔
نیب نے اکثر بدعنوانی کے کیسز آمدن سے زیادہ ذرائع پر بنائے ہیں، جس میں ملزم کو یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ بے قصورہے نا کہ نیب کو شواہد یا دستاویز پیش کرنا ہوتا تھا۔ مزید یہ کہ نئے آرڈیننس کے مطابق احتساب عدالت کسی بھی ملزم کو ضمانت دے سکتی ہے۔ پہلے قانون میں 90 روز کے ریمانڈ کے بعد ہی ملزم ضمانت کے لئے کسی بھی ہائیکورٹ میں درخواست دے سکتا تھا اور ہائی کورٹ صرف انہیں کیسز کو سنتی تھی، جہاں انسانی حقوق کی شدید پامالی ہو۔ اب کی بار ایک ریٹائرڈ ہائی کورٹ کا جج بھی احتساب عدالت میں تعینات کیا جاسکتا ہے۔ پہلے اتنے زیادہ کیسز کی وجہ سے کورٹ کا سزا دینے کا تناسب کم رہا ہے کیونکہ ایک جج ایک وقت میں بہت سارے کیسز سنتا تھا۔
اپوزیشن اور حکومت کی انا کی جنگ
صدر عارف علوی کے جاری کردہ اس آرڈینس کو حکومت نے نافذ تو کردیا ہے۔ اپوزیشن کا کہنا تھا کہ اس آرڈینس کو پارلیمنٹ میں لا کر اس پر بحث کرانا ضروری تھا۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتیں اسے یکطرفہ فیصلہ قرار دے رہی ہیں۔ نون لیگ نے اس آرڈینس کو کالے قانون کا طعنہ دے کر ہر فورم پر احتجاج کرنا کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چیئرمین نیب کی توسیع کو بد نیتی پر فیصلہ قرار دیا تاکہ حکومت اس اقدام کے ذریعے اپنے وزیر اور ساتھیوں کی کرپشن کو بچاسکے۔
اپوزیشن کی اکثر جماعتوں کا ماننا ہے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے حکومت اپنے آٹا اور چینی اسکینڈلز کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے۔ اس آرڈینس سے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اورمفتاح اسماعیل کو کیسز میں ریلیف ملنے کاامکان زیادہ ہوگیا ہے۔بہرحال اب یہ اپوزیشن جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ روایتی بیان بازی سے اجتناب کرتے ہوئے اس آرڈینس کے مثبت پہلوؤں پر توجہ دیں۔
مزید جانیے:
پینڈورا پیپرز، چُھپی دولت کی تلاش اور بدعنوانی کی لعنتیں
Discussion about this post