نیوزی لینڈ کی وزیر صحت عائشہ ورل کا عزم ہے کہ اگلی نسل کو تمبا کو نوشی سے روکنے کے لیے اب سخت اقدامات کیے جارہے ہیں اور ہر ممکن طور پر کوشش کی جائے گی کہ 2025تک سگریٹ کوئی استعمال ہی نہیں کرے۔ ان کے مطابق اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کوئی نوجوان سگریٹ نوشی نہ کرے۔ نیوزی لینڈ میں اس سلسلے میں سگریٹ فروخت کرنے والی دکانوں کو بھی کم سے کم تر کرنے جارہی ہے۔ اس وقت 8ہزار دکانیں جنہیں کم سے کم کرکے 500کردیا جائے گا۔ نئے قوانین کے تحت 14سال سے کم عمربچوں کو کوئی دکاندار سگریٹ نہیں فروخت کرے گا جبکہ آنے والے برسوں میں 18سال سے زیادہ کی عمر کے افراد ہی سگریٹ نوشی کریں گے، جس کے بعد اس قانون کا سہارہ لے کر اس حد کو اور بڑھایا جائے گا۔۔
نیوزی لینڈ میں سگریٹ نوشی کی شرح کو 2025تک 5فی صد کرنے کا ہدف ہے اور اس بات کی بھی پوری کوشش کی جائے گی کہ کوئی سگریٹ کا عادی ہی نہ بنے۔ سروے رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ کے 13فی صد بالغ افراد سگریٹ نوشی کرتے ہیں۔ جسے اور کم کیا جارہا ہے۔ وزارت صحت کا ماننا ہے کہ سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہر چار میں سے ایک کینسر کا مریض بنتا ہے اور ہر سال 4سے 5ہزار افراد سگریٹ نوشی کی وجہ سے موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ اور کیونکہ نیوزی لینڈ کی آبادی لگ بھگ 50لاکھ کے قریب ہے، تو کوشش کی جارہی ہے کہ کوئی سگریٹ نوشی کرے ہی نہیں۔ تاکہ آبادی کینسر اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق نیوزی لینڈ میں مردوں کے مقابلے میں خواتین سگریٹ نوشی کا شکار رہتی ہیں۔
Discussion about this post