چودہ فروری کا پیار کرنے والے پورا سال بڑی بے چینی سے انتظار کرتے ہیں اور کریں گے بھی کیوں نہیں، دراصل یہ مشہور جو ہے ” ویلنٹائن ڈے ” کی وجہ سے اب یہ کہا جاتا ہے کہ تیسری صدی قدیم روم میں ویلنٹائن ٹرنی نامی نے نوجوان سپاہیوں کی شادی پر لگی پابندی کے خلاف بغاوت کی تھی، پادری ویلٹائن پریمیوں کی چھپ چھپا کر شادیاں کراتا رہا۔ جس کی مخبری حکمرانوں کو ہوئی تو اس معصوم سے پادری ویلنٹائن کا سر قلم اس لیے کردیا گیا کہ وہ دو پیار کرنے والوں کو ملاتا جو تھا۔ بس پھر کیا تھا پادری ویلنٹائن کا نام تو محبت کی علامت بن گیا۔ جس کے بعد ہر سال اس کی یاد میں یہ دن منایا جانے لگا۔
محبت کے دیپ دلوں میں جلانے والے ایک دوسرے کو سرخ گلاب یا کوئی اور تحفہ دے کر اس رسم کو برسوں سے نبھا رہے ہیں۔ شاپنگ مالز، ریسٹورنٹس اور دیگر لگژری آؤٹ لٹس میں ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے خوبصورت دیدہ زیب ڈیکوریشن جبکہ گاہگوں کے لیے بچت کا بھی اعلان کیا جاتا ہے، لال گلاب کے اسٹالز جگہ جگہ سج جاتے ہیں۔ چاکلیٹس، پرفیوم، ٹیڈی بیئر، کیکس اورلال رنگ کی ہرچیز محبت کرنے والوں کےلئے تحفے کی شکل اختیارکر لیتی ہے۔
یہ دن کسی کے لیے خوشی لاتا ہے تو کسی کو ذرا نہیں بھاتا۔ ہر خطے میں اس دن کی مناسبت سے کئی روایات اور کئی نظریات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن عام اصطلاح میں اسے پریمی جوڑوں کا ہی دن تصور کیا جاتا ہے، مگر ٹھہریے جناب ہم نے اس دن کو صرف پریمی جوڑوں تک کیوں محدود کردیا ہے ؟ ہمارے آس پاس کئی ایسے رشتے ہیں جن سے ہمیں محبت ہوتی ہے، ہمارا دل ان کے جذبات، احترام ، نیک خواہشات اور احساسات سے بھرا ہوتا ہے۔ ان رشتوں میں والدین، دوست، احباب، بہن بھائی ، افسر ماتحت سب ہی تو شامل ہیں۔ تو پھر کیوں ناں ویلنٹائن ڈے پر ہم انہیں بھی یاد رکھیں۔ جن کے ہم ممنون ہیں۔
محبت ایک سدا بہار جذبہ ہے جو ہر موسم میں مہکتا ہے، محبت کا جذبہ انمول ہی سہی لیکن اس کا اظہار بھی ضروری ہے اور یہی اس دن کومنانے کا مقصدہے۔ تو پھر کیا خیال ہے کہ محبوب یا محبوبہ شوہر یا بیوی کے ساتھ ان رشتوں اور تعلق سے محبت کے اظہار کے لیے اس ویلنٹائن ڈے پر کوئی اچھا ساتحفہ یا پھر سرخ گلاب ہی کیوں ناں دیا جائے ۔
Discussion about this post