صرف ایک لفظ جسے میں جانتی ہوں اسے جہنم کہتے ہیں۔ یہ کہنا تھا والدین کی قید سے آزاد ہونی والی جینیفر ٹرپن کا جس کا بچپن حسین یادوں کے بجائے ناقابل فراموش واقعے، ماں باپ کے پیار و محبت کے بجائے درندگی بھری سزائیں اور زنجیروں سے بندھے دردناک لمحات میں گزرے ہیں۔
اس بے رحمانہ داستان میں جنیفر ٹرپن اکیلی نہیں بلکہ اس کے ساتھ اس کے 12 بہن بھائی بھی شامل تھے جنھوں نے سنگ دل ماں باپ کی سفاکی کو کئی سال تک جھیلا تھا، جنیفر اور اس کے بہن بھائیوں پر وحشیانہ تشدد کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ انہیں کے والدین تھے جنھوں نے اپنی ہی اولادوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے تھے۔
لیکن ظلم آخر کب تک چھپ سکتا ہے؟ 13 بہن بھائیوں میں جنیفر ٹرپن 2018 میں بے بسی اور گھٹن کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے آزاد ہونے میں کامیاب ہوئی تھی، 4 سال قبل ڈرامائی انداز سے فرار ہونے والی جنیفر ٹرپن نے پہلی بار دنیا کے سامنے اپنے ماں باپ کی سفاکی ک بیان کرنے کا ٹھانا ہے، جنیفر ٹرپن اور جورڈن ٹرپن کا بچپن اتنا خوفناک تھا کہ ان لمحات کو بیان کرتے ہوئے ان کے چہرے میں قرب اور خوف کے تاثرات کئی مرتبہ آتے جاتے دکھائی دیئے۔
جنیفر ٹرپن نے پہلی مرتبہ اے بی سی نیوز کی ڈیان ساویر کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے فرار ہونے والے لمحات کو یاد کرتے ہوئے اپنے والدین ڈیوڈ اور لویز ٹرپن کی ہولناکی کے بارے میں بتایا کہ میرا جسم بری طرح کانپ رہا تھا، میں نے کئی مرتبہ موت کو قریب سے دیکھا تھا، میں چاہتی تھی کہ میں کوشش کرتے ہوئے مروں۔ زنجیر، تشدد، خوف اور دہشت سے بھرے ٹرپن سسٹرز کا یہ خصوصی انٹرویو ڈیانا ساویر کے شو اسپیشل ایونٹ جمعے کو اے بی سی اور ہولو میں نشر کیا جائے گا، جس میں ظالم ماں باپ کی سفاکی اور ٹرپن فیملی میں چھپے رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔
13 children were held captive by their parents in a survival story like you’ve never seen. Now, hear from the family for the first time. Watch the @DianeSawyer special event – “Escape From A House Of Horror” – premiering Friday, November 19th at 9/8c on @ABC and stream on @Hulu. pic.twitter.com/JrxeQBuR2O
— 20/20 (@ABC2020) November 9, 2021
جنیفر ٹرپن فرار کیسے ہوئی؟
جنوری 2018 میں امریکی ریاست کیلی فورنیا میں واقع ایک گھر جو کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا جہاں معصوم بچوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک رکھا گیا تھا، وہاں سے ایک بچی گھر سے بھاگ نکلتی ہے اور پولیس کے پاس جا پہنچتی ہے، جہاں سے وہ 11/9 کو کال کرتی ہے، خوف اور دہشت میں مبتلا بچی کال پر کہتی ہے کہ اس کے گھر میں اس جیسے مزید 12 بچے ہیں جو زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں، پلیز جلدی پہنچیں، ہمیں رہائی دلوائیں۔
پولیس کے مطابق دبلی پتلی لڑکی بظاہر 10 سال کی معلوم ہوتی ہے لیکن درحقیقت لڑکی کی عمر 16 سال ہے جو کئی دنوں سے فاقے اور ڈر کے باعث کمزور دکھائی دیتی ہے۔ جس کی معصومیت اور لڑکپن والدین کی دہشت کے نظر ہوگئی تھی۔
گھر میں خوفناک منظر
کیلی فورنیا سے 112 کلومیٹر کی دوری پر واقع اس گھر پر حکام نے چھاپہ مارا تو آنکھیں دنگ رہ گئیں، ہر طرف انسانی فضلے اور گندگی کی بو پھیلی ہوئی تھی، بچے بستر اور فرنیچر سے زنجیروں کی مدد سے بندھے ہوئے تھے، 12 بچوں کی عمریں 2 سال سے 29 سال کے درمیان تھی جن کے ساتھ بھیڑ بکریوں سے بھی بدتر سلوک کیا گیا تھا۔
سب کے چہروں پر نقاہت کے آثار نمایاں تھے، کھانے پینے کا کوئی سامان تھا ہی نہیں، بچے کیا تھے ہڈیوں کے ڈھانچے تھے، جنھیں سال میں ایک بار سے زیادہ مرتبہ نہانے نہیں دیا جاتا تھا۔ وہ رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ استعمال نہیں کر سکتے تھے، ہرطرف انسانی فضلے سے اٹھنے والی بو نے سانس لینا مشکل کردیا تھا۔
اس صورتحال کی وجہ سے کچھ بچوں کی افزائش کا عمل اس قدر متاثر ہو چکا تھا کہ وہ بڑی عمر کے باوجود دیکھنے میں بچے لگتے تھے۔ انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی، یہ بچے نہ پڑھتے تھے نہ ہی کھیل کود میں حصہ لیتے تھے البتہ انھیں ہیلون کے موقع پر یا پھر ڈزنی لینڈ اور لاس ویگاس کے سفر پر خاندان کے ہمراہ جانے کی اجازت تھی۔
یہاں سب زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ ارگرد کے لوگوں نے بھی کوئی پراسرار حرکت نہیں دیکھی اور نہ ہی کسی بچے کو باہر نکلتے دیکھا، پڑوسی بس یہی سمجھتے تھے کہ اس گھر میں دو میاں بیوی جس کا نام ڈیوڈ اور لویز ٹرپن ہے۔
والدین نے ایسا کیوں کیا؟
ڈیوڈ ٹرپن جس کی عمر 57 سال ہیں اور 49 سالہ لویز ٹرپن کو اپنے ہی بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور زنجیروں سے باندھ کر قید میں رکھنے پر عمر قید کی سزا سنائی گئی، دوران تفتیش والدین نے بتایا کہ گھر میں دی جانے والی تربیت اور نظم و ضبط قائم رکھنے میں ہماری اچھی نیت شامل تھی۔ ہم نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ ہمارے بچوں کو تکلیف ہو، ہمیں اپنے بچوں سے محبت ہے اور یقین ہے کہ وہ بھی ہم سے محبت کرتے ہیں۔
والدین نے بچوں کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیوں رکھا یہ اب بھی ایک راز ہے لیکن میڈیا رپورٹس اور تحقیقات کے مطابق بچوں کے باپ ڈیوڈ ٹرپن ایک ڈیفنس کنٹریکٹر کے یہاں کام کرتا تھا لیکن 2011 میں یہ خاندان دیوالیہ ہوگیا تھا، اسکے ذمہ 5لاکھ ڈالر واجب الادا رقم تھی اور چونکہ وہ اس رقم کو ادا نہیں کرسکتے تھے اسلیے گرفتاری سے بچنے کیلئے نقل مکانی کرتے رہےاور اسی لیے بچوں کو بھی چھپا کر رکھا،اپنی ناکامی کا سارا غصہ بچوں پر اتارتے تھے جس میں ان کی ماں لویز ٹرپن بھی دیتی تھی، ٹرپن بچوں کے والدین دوہری شخصیت کا شکار تھے جبکہ تشدد میں شدت کی ایک وجہ بچوں پر عدم توجہ بھی ہوسکتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بچے جو مختلف این جی اوز اور حکومتی نگرانی میں پرورش پا رہے تھے انہوں نے اپنے اوپر ڈھائے گئے تمام تر وحشیانہ ظلم و تشدد کے باوجود والدین کو معاف کردیا ۔جبھی لویز ٹرپن اور ڈیوڈ کو 25سال کی سزا سنائی گئی ۔ لیکن آج بھی کوئی اُن کے اس گھر کے سامنے سے گزرتا ہے تو اسے ‘ہاؤس آف ہارر’ کے نام سے ہی یاد رکھتا ہے ۔
Discussion about this post