دہلی کے شاہین باغ میں وہ منظر کسی فلم کا لگ رہا تھا۔ جب میونسپل کارپوریشن کے اہلکار مسلمانوں کی آبادی پر تجاوزات کا الزام لگا کر بلڈوزر سمیت کود پڑے تھے۔ ہزاروں مسلمان احتجاج کررہے تھے لیکن دھیرے دھیرے بلڈوزر آگے بڑھ رہے تھے۔ مسلمانوں کی املاک بس تباہ و برباد کرنے کا بھیانک ارادہ تھا۔ تب سماجی کارکن اور وکیل ارفع خانم کی انٹری ہوئی۔ جنہوں نے مسلم خواتین کے ساتھ ان بلڈوزرکے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے باوجود بلڈوزرچلانے والے رکے نہیں تو تب ارفع خانم بلڈوزرکے اوپر چڑھنے لگیں۔ جنہوں نے بلند آواز سے کہا کہ اگر بلڈوزر چلانا ہے تو ہماری لاشوں پر سے ہو کر اسے گزرنا پڑے گا۔
ارفع خانم بلڈوزر پر چڑھنے والی پہلی خاتون تھیں۔ جنہوں نے دیگر خواتین کے اندر ایک نئی تحریک بھر دی۔ ایک نیا جذبہ بیدار کردیا۔ ارفع خانم کی ٹانگ میں فریکچر تھا لیکن پھربھی وہ چٹان کی طرح کھڑی رہیں۔ ارفع خانم کی بلڈوزر پر چڑھنے والی ایک تصویر سوشل میڈیا پر خاصی وائرل ہوئی۔ جبھی انہیں ” شاہین باغ کی شیرنی” کا خطاب دیا جارہا ہے۔ ہر کوئی ان کی ہمت اور بہادری کی داد دے رہا ہے۔ جنہوں نے زخمی ہونے کے باوجود میونسپل کارپوریشن کے ناجائز اقدامات کے خلاف آواز ہی نہیں عملی طور پر بھی قدم اٹھایا۔
دہلی میں پیدا ہونے والی ارفع خانم کے والد ڈاکٹر ہیں جبکہ خود ارفع خانم نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ دسویں جماعت سے وہ فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ کچی آبادیوں میں بچوں کو پڑھاتی رہی ہیں اور جوں جوں وقت گزرا انہیں سماجی اور فلاحی کاموں میں مزا آنے لگا۔ ارفع خانم سیشن، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں خواتین کے خلاف جرائم کے مقدمات لڑتی ہیں۔ جو خواتین کے بنیادی حقوق کے لیے سرگرم ہیں اور یہ سارا کام وہ وکیل شوہر کے ساتھ مل کر کررہی ہیں۔
ارفع خانم سماجی کارکن ہی نہیں کانگریس پارٹی سے بھی تعلق رکھتی ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ شاہین باغ میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہتی ہیں۔ کارپوریشن والوں نے بغیر کسی نوٹس کے شاہین باغ کی مسلم آبادی کو جب گرانا شروع کیا تو یہ سب ان سے برداشت نہیں ہوا۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ بھی احتجاج کرنے والوں کے ساتھ تھیں۔ جن کا کہنا تھا کہ تجاوزات کی آڑ میں مسلم آبادی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ارفع خانم کا کہنا ہے کہ انہیں اسی احتجاج کے دوران ایسا دھکا لگا کہ ان کی ٹانگ میں فریکچر آگیا۔ جس پر انہوں نے معمولی سا پلاسٹر چڑھوایا لیکن احتجاجیوں اور مظاہرین کا ساتھ نہ چھوڑا۔ اسی وجہ سے ان کی ہمت اور جرات مند اقدام کو ہر کوئی سراہا رہا ہے۔
ارفع خانم کہتی ہیں کہ انہیں اس حالت میں احتجاج کرنے پر پیر میں شدید تکلیف تو ہوئی لیکن ان کی یہ تکلیف ہزاروں مسلمانوں کی تکلیف اور دکھ کے مقابلے میں کچھ نہیں۔
Discussion about this post