ناکامی، مایوسی، بے چارگی اور پھر ذہنی دباؤ، نتیجہ ،،،، موت کو گلے لگانا۔ یہ کوئی سچے واقعات نہیں بلکہ تفریحی چینلز سے نشر ہونے والے ڈراموں کا موضوع بن گیا ہے۔ کوئی محبت میں ناکامی سے دل برداشتہ ہے، تو کوئی پچھتاوے کی آگ میں جل رہا ہے۔ کوئی معاشی مشکلات سے نجات کا واحد ذریعہ، اپنی ہی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کرنا سمجھ رہا ہے۔ ڈراموں میں خودکشیاں ایسی ہورہی ہیں کہ جیسے حالات سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کسی میں سکت ہی نہیں رہی ہو۔
پیغام یہی جارہا ہے کہ کچھ نہیں کرسکتے،،، تو بس اس دنیا کو ہی الوداع کہہ دو۔
لوگ کیا کہیں گے
حالیہ دنوں میں تو اس رحجا ن میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اب جیسے ’لوگ کیا کہیں گے‘ میں اعجاز اسلم بھاری قرض ادا نہ کرنے پر اپنی ہی جان لے لیتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ رائٹر قرضوں کے بوجھ تلے دبنے والے اس کردار کو خودکشی پر مجبور کرنے کے بجائے اور راہ دکھاتا ۔ اُسے اس بات کی ترغیب دیتا کہ وہ پھر سے اپنے پیروں پر کھڑاہو کر کوئی چھوٹا موٹا کام کرکے دھیرے دھیرے اس قرض کو اتارتا جو اس کے اعصاب پر سوار تھا ۔یہ رائٹر کا کام تھا کہ وہ اس کردار کے لیے کوئی امید بھرا راستہ دکھاتا تاکہ ہمارے معاشرے میں موجود بے شمار قرض داروں کو حوصلہ اور نئی امید ملتی کہ اگر وہ مقروض ہیں تو زندگی سے راہ فرار اخیتار کرنے کے بجائے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔
آزمائش
اُدھر ’آزمائش‘ میں ریشما گل کو محبت میں ناکامی کیا ملی کہ محترمہ نے خود کو ڈرامے میں گولی مار لی۔ یہاں پھر رائٹر کا کام تھا کہ وہ یہ بھی دکھا سکتا تھا کہ ریشما اس ناکامی کو بھول کر زندگی کی طرف لوٹ آئے ۔ صرف محبت نہ ملنے کی ذرا سی بات پر موت کا انتخاب کرکے رائٹر نے صنف نازک کو منفی پیغام دیا۔ ہماری رئیل لائف میں ایسی کئی لڑکیاں ہیں جو اس درد سے گزری ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ سب بھول بھال کر خود کو اس قابل بناتی ہیں کہ جس نے انہیں ٹھکرایا ہے ۔ وہ پچھتاوے کا شکار ہو ۔ رائٹر ایسی مثال کیوں اس ڈرامے میں پیش نہیں کرسکا ۔ جس سے یشمہ جیسی لڑکیوں کو ڈھارس ملے۔
ہم کہاں کے سچے تھے
اب ان دنوں ٹاک آف دی ٹاؤن بننے والے ڈرامے ’ہم کہاں کے سچے تھے‘ میں بھی کبریٰ خان نے حسد اور جلن کی وجہ سے موت اور زندگی میں سے، موت کا انتخاب خود کیا۔ یہاں بھی رائٹر کی تخلیقی صلاحیتوں کا امتحان تھا ۔ اگر اس تخلیق میں کوئی ڈرامائی موڑ ہی لانا تھا تو خودکشی ہی کیوں؟ حسد اور جلن جیسی معمولی بات پر خودکشی کرنا سمجھ سے بالاتر ہے ۔ یہ بھی تو ممکن تھا کہ اگر کردار کی نفیسات کے مطابق اسے حسد اور جلن ہی ہے تو وہ زندہ رہتے ہوئےمخالف کی راہ میں رکاوٹیں بھی کھڑی کرسکتی تھی یا پھر خود کو مزید آزمائش ماور کرب میں مبتلا کرنے کے بجائے اس ماحول سے دور بھی جاسکتی تھی ۔ درحقیقت یہ رائٹر کا کام ہوتا ہے وہ کس طرح کہانی کو آگے لے کر جائے ۔ کسی کے کردار کو ختم کرنے کے لیے صرف خودکشی دکھانا اس عمل کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ڈراموں میں ہمیشہ خوشی اور تصوراتی دنیا کو نہیں دکھایا جاسکتا لیکن کیا ہر مسئلے کا حل صرف خود کشی ہی رہ گیا ہے؟
ہم جس سوسائٹی میں جی رہے ہیں، وہاں بے شمار مسائل ہیں۔ بے روزگاری، بے چینی، کام کا دباؤ، بے سکونی اور نجانے اور کون کون سی پریشانیاں نہیں جن سے عوام نمٹ رہے ہیں۔ اب ایسے میں ڈراموں میں خودکشی کو ہی تمام مسائل کا حل بتایا جائے گا تو ذرا تصور کریں کہ اس کا کمزور اعصاب والے نوجوان پر کیا برا اثرپڑے گا۔ یہ ڈرامے شخصیت کو ہی نہیں ذہنوں کی تبدیلی کا باعث بن رہے ہیں۔
اعداد شمار کیا کہتے ہیں
دنیا بھر میں خودکشی کرنے والے ممالک میں پاکستان 15ویں نمبر پر آتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں سالانہ 6ہزار افراد کسی نہ کسی بات پر موت کو خود گلے لگاتے ہیں۔
کیا ڈرامے خود کشی کے پیغام کو عام کررہے ہیں؟
بظاہر تو ایسا ہی لگتا ہے۔ ماضی میں بھی کئی ایسے ڈرامے ٹی وی چینلز کی زینت بن چکے ہیں جس میں ناکامی کا حل خودکشی کو قرار دیا گیا ہے، جن میں ہمسفر، چپ رہو، ڈنک جیسے مقبول ترین ڈرامے شامل ہیں۔ کیا ممکن نہیں کہ ایسے شخص کو جو زندگی سے تمام تر امیدیں ہار بیٹھا ہو، اُسے خود کشی کرنے پر مجبور مناظر کی ڈرامے کا حصہ بنائے جائیں؟ مان لیں کہ اگر دکھانا بہت ضروری ہے تو کیا متعلقہ کردار کی زندگی کا خاتمہ اُسی کے ہاتھوں سے ہی کیوں دکھایا جاتا ہے؟
اتنے سارے ماہر اور اعلیٰ قسم کے ڈرامائی موڑ لانے والے رائٹرز ہیں، کیوں وہ اس پہلو پر غور نہیں کرتے کہ ڈرامے میں سنسنی اور ایکشن لانے کے لیے ایسے مناظر سے چھٹکارہ بھی تو پایا جاسکتا؟
Discussion about this post