ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی پروڈکشن منیجر ملک عدنان کا کہنا ہے کہ آنجہانی پریانتھا کمار میرٹ پر کام کرنے کے عادی تھے، و ہ کام میں نظم و ضبط کے بھی قائل تھے اور جو قانون اپنے لیے روا رکھا تھا، وہی ملازمین کے لیے بھی ۔ملک عدنان کے مطابق وہ 16سال سے فیکٹری سے منسلک ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا، وہ میٹنگ میں مصروف تھے کہ کال آئی کہ پریانتھا کمار نے کسی کو ڈانٹا ہے تو اُنہیں مارنے کے لیے کچھ لوگ آرہے ہیں۔یہ سنتے ہی وہ فوراً میٹنگ چھوڑ کر سری لنکن منیجر کو بچانے کے لیے بھاگے۔ ملک عدنان کا کہنا ہے کہ کوئی چالیس پچاس کے قریب مشتعل افراد تھے،جب کہ پریانتھا کمار چھت کی طرف جان بچانے کے لیے جارہے تھے، جبھی وہ بھی اُن کے تعاقب میں گئے۔ زخمی حالت میں تھے تو ملک عدنان اُسی وقت ان کے اوپر گرگئے اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش میں لگے رہے۔اس دوران مشتعل ہجوم نے انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا لیکن جب تک ہمت تھی ملک عدنان پریانتھا کے پاس کھڑے رہ کر انہیں بچاتے رہے۔یہاں تک کہ ان افراد نے انہیں کھینچ کر الگ کردیا۔ جس کے بعد انہیں بھی معلوم نہیں ہوسکا کہ سری لنکن منیجر کے ساتھ پھر بعد میں کیا ہوا۔
ملک عدنان نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے یہ بھی انکشاف کیا کہ پریانتھا کمار اردو پڑھ سکتے تھے اور ناہی لکھ سکتے تھے اور اُس دن وہ فیکٹری میں معمول کی صفائی ستھرائی کرارہے تھے۔ملک عدنان کا کہنا ہے کہ صرف وہی نہیں ایک اور نوجوان بھی پوری کوشش کررہا تھا کہ پریانتھا کمار کی جان بچائی جائے اور دونوں مل کر غصے میں بھرے ہجوم سے باقاعدہ معافیاں بھی مانگ رہے تھے۔اس سوال کے جواب میں کہ فیکٹری میں موجود سیکوریٹی گارڈز نے مداخلت کیوں نہیں کی۔ ملک عدنان کہتے ہیں کہ وہ عقب میں فیکٹری کی حساس تنصیبات کو محفوظ کررہے تھے اور اُنہیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ مرکزی دروازے پر کیا ہورہا ہے۔
ملک عدنان نے وزیراعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا اور اُن کا کہنا ہے کہ اس طرح دوسرے لوگوں کو یہ ہمت اور حوصلہ ملے گا کہ وہ مشکل اور دشوار صورتحال میں بہادری اور جرات کا مظاہرہ کریں۔ملک عدنان سیالکوٹ کے نواحی گاؤں اولکھ جٹاں کے رہائشی ہیں۔ وہ اسی فیکٹری میں ملازم ہیں جہاں سری لنکن منیجر کام کرتے تھے۔
اسی بارے میں مزید پڑھنے کے لیے کلک کریں:
Discussion about this post