پنجاب پولیس نے یہ مطالبہ ایسے وقت میں داغا ہے کہ جب لاہور میں ایک ہی خاندان کے 4 افراد کے قتل کی لرزہ خیز واردات ہوئی۔ جب بیٹے نے ہی پورے خاندان کو لہو میں نہلا دیا۔ جس نے گولیاں چلا کر خون کےرشتوں کو زندگیاں چھین لیں۔ یہ خون میں ڈوبی ہوئی واردات کاہنہ میں پیش آئی تھی۔ جب 14 برس کے زین کو پب جی گیم کھیلنے سے والدہ نے منع کیا۔زین اس گیم کا دھتی تھا۔ جو مقتولہ ڈاکٹر ماں کے منع کرنے کے باوجود اس خونی کھیل سے باز نہ آیا۔
روز روز کی پابندی اور سختیوں سے تنگ ؔآکر اس بے رحم بچے نے ایک خونی سازش رچی۔ جس نے ماں بھائی اور دو بہنوں پر گولیاں چلائی اور واقعے کو ایسا رنگ دیا جسے گھر میں ڈاکو گھس آئے تھے۔ شاطر زین نے پولیس کو یہ بیان دیا کہ وہ اس سارے واقعے میں چھپ گیا تھا۔ لیکن پولیس نے تحقیق کی تو ہر راز اور ہر جھوٹ پر سے پردہ اٹھنے لگا۔
کم عمر قاتل نے اعتراف کیا کہ اُس نے ہی اپنے خاندان کو موت کے گھاٹ اتارا۔ وجہ وہی تھی کہ ماں پب جی کھیلنے سے بار بار منع کرتی تھی۔ جس پر اُس نے اپنے خاندان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے۔ اس سے قبل بھی کئی نوجوان پب جی کھیلنے سے منع کرنے پر خونی کھیل کھیل چکے ہیں۔ اسی بنا پر اب پنجاب پولیس نے وفاقی اور صوبائی حکومت سے پب جی پر پابندی لگانے کی مانگ کی۔ جس کی وجہ سے خطرناک نفسیاتی اثرات ہورہے ہیں ۔ بچے اشتعالی اور غصہ آور ہورہے ہیں۔ جو اس کھیل کے ایسے رسیا ہورہے ہیں کہ سگے رشتوں کے ہی خون کے پیاسے بن چکے ہیں۔
Discussion about this post