سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپیل کی سماعت 3 رکنی بینچ کررہا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ سوال صرف یہ ہے کہ آج 4 بجے اجلاس ہونا ہے یا نہیں؟ اجلاس نہ ہونے پر قائل کریں پھر دیکھیں گے کہ آج نہیں تو کب یہ ہوسکتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایسی شق ہے کہ وزیراعلیٰ کے الیکشن تک گورنر چارج سنبھال لیں؟ اگر وزیراعلیٰ نہ ہو تو کون صوبے کا انتظام سنبھالتا ہے ؟ جس پر وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ مستعفی ہوجائے تو نئے انتخاب تک گورنر ہی صوبہ چلاتا ہے ۔پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ ایوان میں کسی کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ 25 منحرف ارکان کو نکال دیا جائے تو پی ٹی آئی ارکان کی تعداد 169 بنتی ہے۔ جس کے جواب میں چیف جسٹس کا کہناتھا کہ اس کا تو واضح مطلب ہے کہ آپ کے پاس اکثریت نہییں ہے۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ کسی وجہ سے وزیراعلیٰ عہدہ سنبھالنے کے قابل نہیں ہے تو پھر کون انتظام دیکھے گا؟ ہائی کورٹ چاہتا ہے کہ صوبے میں حکومت قائم رہے۔ کیا پنجاب میں قائم مقام وزیراعلیٰ والا فارمولا اپلائی ہوسکتا ہے ؟ انہوں نے مزید کہا ہے کہ 17 جولائی کو عوام نے 20 نشستوں پرووٹ دینے ہیں۔ عوام خود فیصلہ کرے تو جمہویت زیادہ بہتر چل سکتی ہے۔ ضمنی الیکشن تک صوبے کو چلنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس اعجاز الاحسن کے مطابق اسمبلی تحلیل ہونے پر ہی نگراں حکومت بن سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کا انتخاب کے لیے دیا گیا وقت کافی ہے یا نہیں؟ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ تحریک انصاف کی پریشانی سے واقف ہیں۔ نہیں سمجھتے کہ صوبے کو وزیراعلیٰ کے بغیر رکھا جائے۔ اس موقع پر تحریک انصاف نے دوبارہ انتخابی عمل کے لیے عدالت سے 7 دن کا وقت مانگ لیا ہے۔
Discussion about this post