تھکن ہو یا پھر ذہنی پریشانی یا پھر کچھ سوچ بچار کا من چاہے تو ایک گرما گرم چائے کی پیالی پینے کے بعد یہ ساری پریشانیاں اُڑن چھو ہوجاتی ہیں۔ یار دوستوں کی محفلوں میں جس چیز کی موجودگی ضروری ہوتی ہے، اُس میں چائے کے بغیر تو یہ بیٹھکیں ادھوری ہی تصور کی جاتی ہیں۔ ملک کے مختلف شہروں میں اب روایتی ڈھابوں کے ساتھ ساتھ جدید انداز کے چائے خانے بھی کھل گئے ہیں،جہاں دیر رات گئے تک ایک کے بعد ایک کپ پی کر وقت بتایا جاتا ہے۔ مگر اب لگتا ہے کہ چائے کی ایک ہی پیالی پی کر گزارا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ جہاں پیٹرول کے دام بڑھے ہیں، وہیں گوالے بھی آستین تان کر دودھ کی قیمت بڑھانے پر تل گئے ہیں۔یعنی چائے پینے کی یہ تفریح بھی مہنگا سودا ثابت ہونے کو ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ راولپنڈی میں ایک چائے کی پیالی کے لیے 40روپے خرچ کرنے پڑیں گے۔ کچھ ایسی ہی ملتی جلتی صورتحال ملک کے دیگر شہروں میں ہے کراچی میں 30روپے جبکہ لاہور میں 25سے 30روپے میں ڈھابوں اور چائے خانوں میں چائے کا ایک کپ مل رہا ہے۔ پشاور اور کوئٹہ میں بھی 25روپے سے 30روپے میں چائے فروخت کی جارہی ہے۔
چائے کیوں مہنگی ہوئی؟
یہ سوال بڑا اہم ہے، اس سلسلے میں ’تار‘ نے کراچی کے مختلف عنابی ہوٹلز والوں سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول میں حالیہ اضافے کی وجہ سے آمدو رفت کے ذرائع مہنگے ہوئے ہیں،اسی کو بنیاد بنا کر ڈیری فارمرز نے دودھ کی فی لیٹر قیمت ہر جگہ مختلف ہے، جبھی بعض اوقات مہنگا دودھ بھی خریدنا پڑتا ہے۔ دوسرے چینی اور چائے کی پتی کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ بالخصوص چینی جس کے دام ہر روز بڑھتے ہی رہتے ہیں۔ اسی طرح یہ افراد اس بات کی بھی فریاد کررہے ہیں کہ گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی انہیں مجبور کررہی ہیں کہ وہ چائے کی فی پیالی کی قیمت میں اضافہ کریں۔
وفاقی وزیر کا مشورہ
بہرحال اس ساری صورتحال میں وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کا ’مشورہ‘ عوام کو یاد رکھنا چاہیے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر چائے میں چینی کم ڈالیں اور روٹی بھی کم کھائیں۔ ان کے مطابق چائے میں 100دانوں کے بجائے نو ڈال دیے جائیں تو چائے میٹھی ہی رہے گی۔اس تناظر میں اگر چائے کے رسیا افراد جہاں دو دو کپ پی لیتے ہیں تو اسے ایک کرسکتے ہیں۔
Discussion about this post