چین کے سرکاری ٹی وی کے مقبول ترین ٹی وی ہوسٹ زہو جن کے خلاف ’می ٹو مہم‘ کے تحت طویل عرصے سے لڑنے والی خاتون زوژینانگ عدالت میں اپنامقدمہ ہار گئیں۔ بیجنگ کی مقامی عدالت نے محض ’ناکافی شواہد اور ثبوت‘ کی بنا پر ٹی وی ہوسٹ زہو جن کو تمام تر الزامات سے بری کردیا۔ زوژینانگ نے الزام لگایا تھا کہ وہ 2014میں جب شہرت یافتہ ہوسٹ زہو جن کے شو کے اسٹاف میں شامل ہو کر انٹرشپ کررہی تھیں تو ایک روز ٹی وی ہوسٹ نے ڈریسنگ روم میں ان کے ساتھ نازیبا حرکت کی۔ جس پر انہوں نے عدالت میں اُن پر جنسی ہراسیگی کا مقدمہ کردیا۔ اس مقدمے کے بعد درحقیقت زو ژیانگ ، چین میں صنفی امتیاز اور جنسی ہراسیگی کے خلاف لڑنے والی خواتین کے لیے مثال بن گئی تھیں۔ جن کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کئی اور خواتین ان کے ساتھ آکھڑی ہوئیں بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہترہوگا کہ چین میں ’می ٹو مہم‘ کی علامت کے طورپر شناخت کی گئیں۔ کہا گیا کہ یہ مقدمہ چینی عدالت کے لیے ایک آزمائش بن گیا تھا لیکن اب فیصلے سے ملک میں صنفی مساوات اور حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کو شدید دھچکا لگنے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں۔
زہو جن کون ہیں؟
شہرت یافتہ ٹی وی ہوسٹ ہیں، جن کا شو گزشتہ دو دہائیوں سے کامیابی سے جاری ہے۔ وہ چینی قمری نئے سال کی میزبانی کے لیے خاصے مشہور ہیں۔جن کی ریٹنگ دیگر ٹی وی ہوسٹ کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہتی ہے۔ جب اُن پر جنسی ہراسیگی کا الزام لگا تو انہوں نے اس پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ البتہ ان کے وکیل نے تمام تر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے زوژینانگ کے خلاف ہتک عزت کا الگ مقدمہ دائر کردیا۔
زوژینانگ نے حوصلہ نہیں ہارا
گو کہ زوژینانگ اس مقدمے میں ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ انہوں نے اپنے حامیوں کو یہ عزم دکھایا کہ اپنے خلاف ہونے والے اس فیصلے پر وہ اپیل کا حق رکھتی ہیں۔ انہوں نے گلوگیر لہجے اور بھیگے آنسوؤں کے ساتھ کہا کہ انہوں نے تمام تر کوششیں کیں۔مجھے اُن سے گہری ہمدردی ہے، جن کے لیے میں مثال بنی تھی، جن کے اندر میں نے نیا حوصلہ اور عزم دیا تھا۔ زوژینانگ کے ان خیالات پر اُن کے حامیوں نے بلند آواز میں یہی کہا کہ انہوں نے کچھ ایسا غلط نہیں کیا، جس پر وہ شرمند ہ ہوں، اس موقع پر زوژینانگ کو پھولوں کے گلدستے بھی پیش کیے گئے ۔
زوژینانگ نے عدالت پر الزام لگایا کہ انہوں نے اس مقدمے کو درست انداز میں سنا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ کئی بار التجا کرتی رہیں کہ ڈریسنگ روم کے باہر سیکوریٹی کیمرے کی فوٹیج کو حاصل کیا جائے لیکن عدالت نے ان کی تمام تر درخواستوں کو رد کیا۔ انہوں نے اس سارے معاملے کو جانبداری سے بھرا فیصلہ قرار دیا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ وہ مقدمہ جیت نہیں سکیں لیکن ان کے آواز اٹھانے سے سول سوسائٹی پر اس کی اہمیت اوراثرات اور زیادہ پراثر ہوئے ہیں۔ زوژینانگ نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ اس ہار نے انہیں نئی ہمت دی ہے اور جنسی ہراسیگی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کے لیے اب جنگ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے بھی لڑیں گی۔
Discussion about this post