ہندو مت میں وشنو محافظ جبکہ شیوا تباہی کا دیوتا ہے، رامائن میں رام ہیرو اور راون ولن ہے، ہندوستان وشنو اور رام کا بھگت رہا ہے مگر یہ ماضی کی بات ہے، مودی راج میں شیوا اور راون ہیرو بن چکے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں پاکستان کے جیتنے کے بعد جو ہاہاکار بھارت میں مچی ہے، ایسا لگتا ہے کہ کرکٹ نہیں بلکہ کارگل کا معرکہ درپیش تھا۔ ہر طرف مودی سرکار کی لگائی ہوئی زہر کی خون رنگ فصل لہلہا رہی ہے۔ اکشے کمار پنوتی اور شامی کو غدار قرار دیا جا چکا ہے۔ یقین جانیں کوہلی الیون کی شکست کا اگر کوئی ذمہ دار ہے تو وہ جنونی بھارتی میڈیا ہے۔
سبھی تھے زہر کی نفرت کی کاشت میں شامل
پکی ہے فصل تو اب کاٹنے سے ڈرتے ہیں
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سرحد کے دونوں پار جذباتی قوم آباد ہے، کرکٹ رگوں میں دوڑتی ہے مگر یقین جانیں پاکستان میں نفرت کی کاشت اتنی زہر آلود نہیں جتنی اب بھارت کی ہو چکی ہے۔ پاکستان میں کبھی کہیں سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ بھارت سے میچ نہ کھیلا جائے، پاکستان میں کبھی کسی کھلاڑی کو ہارنے پر غدار نہیں قرار دیا گیا چاہے وہ ہندو یا کرسچن ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستانی کھلاڑیوں پر بھی دباؤ ہوتا ہے مگر اتنا خوفناک نہیں جتنا بھارتی کھلاڑیوں پر دیکھا جاتا ہے، اس کی وجہ ہے بھارتی میڈیا، جو کسی طور پاکستان سے ہارنے کا کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑتا، ایک ایسی رائے عامہ کھڑی کر دیتا ہے کہ بھارتی ٹیم ہمیشہ پاکستان سے خوفناک دباؤ میں کھیلتی ہے، اگر بارہ صفر کے بعد بھی ایک میچ ہار جائے تو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے، دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کیا پاکستان میں یہ صورتحال ہے؟ ایسا نہیں کہ پاکستان میں محبت کی نہریں رواں ہیں، نہیں بھارت مخالفت شدت سے موجود ہے مگر ایسی نفرت، ایسا زہر بہرحال موجود نہیں جیسا موجودہ بھارت میں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ نفرت، دشمنی، عداوت اور جنگ حکومتوں کے فیصلے ہوتے ہیں، عام شہریوں کا اس سے براہ راست تعلق نہیں ہوتا، ہاں عام شہری پراپیگنڈے کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں پاکستان اور بھارت کا میچ صرف برصغیر میں نہیں پوری دنیا کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے، روایتی حریف، ساتھ ہی بڑی آمدنی کا ذریعہ بھی، بھارت کی مضبوط اور تجربہ کار ٹیم کے سامنے شاہینوں کی کارکردگی غیرمتوقع اور حیران کن تھی، بھارتی میڈیا پہلے ہی’ راون ‘ بن چکا تھا سو عام شہری تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسے کسی سانحے کا کوئی خدشہ ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں ایسا واویلا مچا ہے جیسے رام مہابھارت ہار گئے ہوں۔ جس طرح غزل کا حاصل ایک شعر ہوا کرتا ہے، میرے لیے حاصل میچ وہ مناظر تھے جہاں کوہلی رضوان سے گلے اور بابر اعظم کو تھپکی دے رہے تھے، دھونی پاکستانی کھلاڑیوں سے گپ لڑا رہے تھے۔ یہی انڈیا کا اصل چہرہ ہے جسے ہندوتوا کی آگ بھسم کر رہی ہے۔
بسلسلہ روزگار 8، 10 سال جدہ کے ایک اخبار سے منسلک رہا جہاں بڑی تعداد میں بھارتی دوست تھے، آپ جانتے ہیں غریب الوطنی میں ہم زبان، ہم ثقافت لوگ نعمت سے کم نہیں ہوتے، دن رات ساتھ گزارے، مباحث، ہلہ گلہ، خوشی اور غم، ہندو، کرسچن، مسلمان، ممبئی، گوا، مدراس، حیدر آباد، کیرالہ اور دیگر علاقوں کے دوست، اس کے علاوہ بیشمار بھارتیوں سے رابطہ رہا، اب بھی دوستی قائم ہے، یقین جانیں ان میں کوئی بھی ایسا متعصب اور زہر آلود نہ تھا جیسا مودی سرکار بھارت ماتا کا چہرہ پیش کرتی ہے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ یا ہندو انتہا پسند ہمیشہ بھارت میں موجود رہے، گاندھی کو قتل کرنیوالے بھی یہی لوگ تھے مگر نہرو کے سیکولر انڈیا نے انکو بےلگام نہ ہونے دیا، بھارتیہ جنتا پارٹی کی مجبوری یہ ہے کہ انتخابات ہی ہندو انتہا پسندی کے نام پر لڑے اب ہندوتوا کی زہریلی فصل کو کاٹنے کا خطرہ کس طرح مول لے سکتی ہے۔
بی جے پی کو بھارتی اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ و صعنت کار ملکر لائے، ہر فاشسٹ حکومت کی طرح میڈیا کو بھر پور استعمال کیا گیا، ہر سو جنونی ارنب گوسوامی جیسے پھنکارتے بھونپو ذہنوں میں زہر انڈیل رہے ہیں۔ ہندوستان کوئی ملک نہیں بلکہ سینکڑوں، سلطنتوں، رجواڑوں اور جاگیروں پر مشتمل ایسا ہجوم جس میں مختلف زبانیں، مذاہب ، روایات، انگریزوں نے پہلی مرتبہ اسے ملک بنایا، انڈیا کا نام دیا، سو آزادی کے بعد نہرو اور امبیڈکر نے بکھیرے اور منتشر معاشروں کو سیکولرازم کی مالا میں جوڑ کر قوم کی شکل دی، یہی سیکولرازم بھارت کی واحد بونڈنگ فورس ہے، سو یوں جانیں کہ مودی سرکار انتہا پسند نظریہ ہندوتوا کے ذریعے بھارت ماتا کی بنیاد کھود رہی ہے۔ رشتہ دار اور پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے، انڈیا کو پاکستان کے شکایات ہوں گی اور پاکستان کو انڈیا سے، ممکن ہے درست بھی ہوں مگر اسکا حل نفرت کے زہر سے ہرگز ممکن نہیں، انڈیا یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ خطے میں بڑا ملک ہونے کے باوجود پاکستان اس کے لیے کبھی بھی نیپال یا بھوٹان نہیں بن سکتا۔ بھارت کا سیکولر چہرہ دنیا میں اس کی شناخت تھا، مگر آج ہندوتوا کے بے شمار زہر اگلتے چہرے انڈیا کی اصل شناخت مٹا چکے ہیں، شیوا، وشنو کو یرغمال بنا چکا ہے، راون راج میں رام کہیں گم ہو چکے ہیں۔
مودی جی، وید، اپنشد اور پران اچھی طرح پڑھ چکے ہیں، منو دھرم شاستر سے واقف ہیں، یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ بہرحال مہابھارت نو چہرے والا راون نہیں بلکہ ایک چہرے والے رام جیتتے ہیں۔ مضبوط اور تجربہ کار انڈین ٹیم کی کمزور اور ناتجربہ کار پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں شکست کا ذمہ دار ہندوتوا اور بھارتی میڈیا ہے۔ اگر بارہ صفر کے بعد ایک میچ ہارنے پر یہ حال ہو سکتا ہے تو یقین جانیں ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ کوہلی الیون کتنا خوفناک دباؤ جھیل رہی ہے۔ ہندوتوا کے پجاریوں کا دبائو، بھارتی میڈیا کا پریشر، نفرت، عداوت، زہریلے جملے اور غداری کے الزامات جھیلنے کے خدشات، یہی ہولناک پریشر شکست کی اصل وجہ ہے۔
پاکستان نفرت کی فصل کا طویل زہریلا دور جھیل چکا ہے، اچھی طرح جانتا ہے کہ نفرت کسی کا ساتھ نہیں دیتی، زہر کی فصل کسی کو نہیں بخشتی، آگ اپنے پرائے کی پہچان نہیں کرتی، بقول راحت اندوری
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
Discussion about this post