عالمی ادارہ صحت ڈبلیوایچ او نے بھی خبردار کردیا۔ کورونا کا یہ نیا وائرس جنوبی افریقا میں پایا گیا۔ جس کے بعد دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی ہے۔ سائنس دانوں نے کہہ دیا کہ یہ وائرس زیادہ ہولناک اور خطرناک ہے۔ اومی کرون کا تکینکی نام بی ڈاٹ ون ڈاٹ ون فائیو ٹو نائن ہے, برطانوی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تحقیق یہ کی جارہی ہے کہ یہ وائرس کتنی تیزی سے پھیل سکتا ہے اور یہ انسانی صحت کے لیے کس قدر خوف ناک ثابت ہوگا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ کورونا کی ویکسین کی خوراکیں اس وائرس کے خلاف کس قدر موثر ثابت ہوسکتی ہیں۔ خوف کے سائے تو یہ بھی منڈلا رہے ہیں کہ جب کورونا کے خلاف ابھی تک ناکافی کامیابی ملی ہے تو اس وائرس سے بھلا کیسے نمٹا جائے گا۔کورونا وائرس کی نئی قسم کے متعلق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس میں مجموعی طور پر 50 جینیاتی تبدیلیاں نوٹ کی گئی ہیں۔
The Technical Advisory Group on SARS-CoV-2 Virus Evolution met today to review what is known about the #COVID19 variant B.1.1.529.
They advised WHO that it should be designated a Variant of Concern.
WHO has named it Omicron, in line with naming protocols https://t.co/bSbVas9yds pic.twitter.com/Gev1zIt1Ek— World Health Organization (WHO) (@WHO) November 26, 2021
جبکہ اس میں کے مخصوص ا سپائک پروٹین، جس کو ویکسین نشانہ بناتی ہے، اس میں 30 جینیاتی تبدیلیاں ہیں۔یہ انسانی جسم کی سطح پر 10 جینیاتی تبدیلیوں کے ساتھ اثر انداز ہوتا ہے۔یاد رہے کہ ڈیلٹا قسم میں ایسی صرف دو جینیاتی تبدیلیاں ملی تھیں۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ کورونا کی نئی قسم، چینی شہر ووہان سے پھیلنے والے وائرس کے مقابلے میں اور زیادہ خطرناک ہے۔ جنوبی افریقا میں پائے جانے والے اس وائرس کے بعد یہ سوال بھی اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ جنوبی افریقا میں اب تک صرف 24فی صد آبادی کی ویکسی نیشن کی جاچکی ہے۔ تو اس صورتحال میں اس وائرس کا شکار جنوبی افریقی باشندے اگر دوسرے ملکوں کی جانب سفر کریں گے تو اس وائرس کے پھیلاؤ کا زیادہ خطرہ ہے۔ اسی بنا پر برطانیہ نے 6افریقی ممالک پر نئی سفری پابندیاں لگادی ہیں۔ صرف برطانیہ ہی نہیں جرمنی، اٹلی، کینیڈا، اور امریکہ نے بھی کچھ ایسا ہی قدم اٹھایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ وائرس ہانک کانگ اور اسرائیل میں پایا گیا ہے۔
Discussion about this post