علاج کی غرض سے برطانیہ کا رخ کرنے والے مسلم لیگ ن کے سربراہ اور برطرف وزیراعظم نواز شریف کے لیے یہ خبر انتہائی مایوس کن بن گئی کہ برطانوی ہوم آفس نے ان کے ویزے میں توسیع کی درخواست رد کردی ۔ جس پر اب نواز شریف کے وکلا نے برطانوی امیگریشن ٹریبونل میں اپیل دائر کردی ہے۔
پاسپورٹ کا کیا ہوگا؟
نواز شریف کے لیے راحت کی بات یہ ہے کہ جب تک اس اپیل پر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا وہ برطانیہ میں رہائش اختیار کرسکتے ہیں، عموماً اس نوعیت کی اپیل پر فیصلہ دو سے تین ماہ کے دوران ہوتا ہے۔ یہ سارا معاملہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب رواں سال 15
فروری کو نواز شریف کے پاسپورٹ کی معیاد بھی ختم ہوگئی تھی اور پی ٹی آئی حکومت نے دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ وہ کسی صورت برطرف وزیراعظم کے پاسپورٹ کی تجدید نہیں کرے گی۔
مارچ میں نواز شریف نے باقاعدہ اس سلسلے میں درخواست بھی دی ، جسے وزارت داخلہ نے مسترد کردیا لیکن نواز شریف کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ خصوصی دستاویزات حاصل کرکے وطن واپس آسکتے ہیں ۔ جس کا ن لیگ کی جانب سے مثبت جواب نہیں ملا بلکہ لیگی رہنماؤں نے اسے حکومتی انتقامی کارروائی قرار دیا ۔
ویزہ توسیع پر حکومتی ردعمل
حکومتی وزرا اور ترجمان بار بار اس بات کا مطالبہ کرتے رہے کہ نواز شریف مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے وطن واپس آئیں ۔ نواز شریف 2 سال قبل لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر علاج کی غرض سے صرف چار ہفتوں کے لیے برطانیہ گئے تھے ۔ تحریک انصاف کی حکومت کا یہی بیانیہ رہا کہ نواز شرف کو انسانی ہمدردی اور ان کی خراب صحت کی بنا پر علاج کے لیے برطانیہ روانہ کیا تھا۔ اب ویزے میں توسیع کی درخواست رد ہونے پر مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ نواز شریف سیاسی پناہ لے لیں۔
ادھر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ برطانیہ میں نواز شریف نے جھوٹ بول کر ویزا لیا اور اب انہیں واپس آکر عدالتوں کا سامنا کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں وزیر مملکت فرخ حبیب کا تبصرہ سب سے دلچسپ ہے کہ نواز شریف کا علاج کرنے والے ڈاکٹر عدنان واپس آگئے لیکن نہ آئے تو نواز شریف۔
ن لیگی رہنما بیک فٹ پر یا فرنٹ فٹ پر ؟
نوا ز شریف کے ویزے میں توسیع کی درخواست رد ہونے پر لیگی رہنماؤں کا وہی موقف ہے جو وہ جلسوں اور پریس کانفرنسز میں کرتے آئے ہیں۔ آج صبح سویرے مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ایک بار پھر یہی کہا کہ نواز شریف کی وطن واپسی کا فیصلہ صرف ڈاکٹرز کریں گے۔ ویزا درخواست مسترد ہونے پر کرائے کے ترجمان خوشیاں منارہے ہیں۔ ویزے کی معیاد ختم ہونے کے حوالے سے حکومت کو سیاسی مخالفین کی صحت پر بیان دینے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے۔ نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے پنجاب اور وفاقی حکومت نے بھیجا تھا۔ حراست میں نواز شریف کے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ ان کی طبیعت بگڑی، نواز شریف کی طبیعت نیب کی حراست میں خراب ہوئی۔ نوازشریف سزا سننے کے بعد بیٹی کے ساتھ پاکستان آئے تھے۔
دوسری جانب مریم نواز اور نواز شریف کے ترجمان اور سابق گورنر محمد زبیر پرامید ہیں کہ نواز شریف کے برطانیہ میں قیام میں توسیع کی اپیل منظور ہوجائے گی۔
ویزا درخواست مسترد ہونے پر کیا ہوسکتا ہے ؟
برطانوی قوانین کے مطابق ویزے کی معیاد ختم ہونے پر متعلقہ فرد کو واپس اُسی کے ملک ڈی پورٹ کیا جاتا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق متعلقہ فرد کسی اور ملک میں سیاسی پناہ کی درخواست کرے تو اس سلسلے میں تمام تر قانونی اور شواہد کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ماہر قانون اعتزاز احسن کے مطابق ممکن ہے کہ اپیل رد ہونے پر نواز شریف کوئی ایسی پناہ گاہ تلاش کریں گے جہاں پاسپورٹ کے بغیر قبول کرلیا جائے۔
نواز شریف کو شیخ رشید کی پیش کش
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کئی بار بلند و بالا انداز میں نواز شریف کو یہ پیش کش کرچکے ہیں کہ وہ جب بولیں تو چارٹر طیارہ انہیں برطانیہ سے واپس پاکستان لانے کے لیے تیار ہے۔ بس نواز شریف ہمت کریں اور ملک واپسی کا فیصلہ کریں ۔
ن لیگ دفاعی پوزیشن پر یا محاذ آرائی کی راہ پر ؟
تجزیہ کاروں کے مطابق ن لیگ قیادت اس وقت متضاد بیانیے میں الجھی ہوئی ہے ۔ مریم نواز جہاں حکومت پر گولہ باری کررہی ہیں وہیں ادارے بھی ان کے نشانے پر ہیں ۔ مریم نواز کے اسی سخت مؤقف کی وجہ سے لیگی قیادت مسائل کا شکار ہے ، کیونکہ دوسری جانب شہباز شریف نے اداروں کے بجائے اپنی توپوں کا رخ صرف اور صرف پی ٹی آئی حکومت پر مرکوز کر رکھا ہے۔ اسی لیے لیگی رہنما تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ مریم نواز کے بیانیے پر چلیں کہ شہباز شریف کے، جو بڑے حلقوں میں مفاہمت کے فارمولے پر یقین رکھتے ہیں۔
نواز شریف کی واپسی سے کس کو فائدہ ہوگا ؟
برطرف وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اس وقت نصف درجن سے زائد مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ نواز شریف اگر واپسی کا فیصلہ کرلیں تو جہاں مایوس پارٹی کارکنوں میں ایک نئی امید اور جوش کی لہر دوڑ جائے گی ، وہیں حکومت کے پاس بھی ن لیگ مخالف بیانیے کی شدت میں بھی کمی آئے گی۔ جس کا فائدہ ن لیگ کو پہنچ سکتا ہے۔ بالخصوص اگلے 2 برس بعد جب انتخابی معرکہ ہوگا تو ن لیگ ایک مظلوم جماعت بن کر اس میں حصہ لے گی ، جو جلسے اور جلوس میں یہ بیانیے پیش کرسکتی ہے کہ اس کی مرکزی قیادت نے پاکستان آکر مقدمات کا سامنا کیا۔ بصورت دیگر نواز شریف کے وطن نہ آنے سے ن لیگ کمزور اور دفاعی پوزیشن پر آکھڑی ہوگی۔ ایک عام تاثر یہ ہے کہ نواز شریف کی واپسی کا سب سے زیادہ فائدہ شہباز شریف کو ہوسکتا ہے ۔
Discussion about this post