بھارتی ریاست پنجاب میں سیاسی ہلچل مچی ہوئی ہے بالخصوص اس لیے بھی کہ آج وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ نے مستعفی ہونے کا اعلان کیا اور اپنا استعفیٰ گورنر کے ہاتھوں میں تھما کر چلتے بنے۔ اب اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ خوش نوجوت سنگھ سدھو اور اُن کا کیمپ ہے۔ کیونکہ سدھو پنجاب میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر ہیں اور یقینی طور پر امریندر سنگھ کے مستعفی ہونے کے بعد اُن کے لیے وزیراعلیٰ کی کرسی پر بیٹھنے کی راہ ہموار ہوچکی ہے اور ایسا ہوا تو سدھو صرف6ماہ کے لیے وزیراعلیٰ رہیں گے کیونکہ اس کے بعد ریاستی الیکشن سروں پر ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق نوجوت سنگھ سدھو کو کانگریس کے80میں سے 78ایم ایل ایز کی حمایت حاصل ہے، جنہوں نے آج امریندر سنگھ کے مستعفی ہونے کے بعد ریاستی بیٹھک میں شرکت بھی کی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2017میں جب کانگریس پنجاب میں برسراقتدار آئی تو سدھو کابینہ کے وزیر تھے لیکن چند ماہ بعد ہی امرتسر کے میئر کے انتخاب پر انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہیں اس بات کا غصہ تھا کہ میونسپل کارپوریشن ان کی وزارت کے تحت ہے لیکن اُن کی رائے کو اہمیت نہیں دی۔کہا جاتا ہے کہ وزیراعلیٰ امریندر سنگھ سے اختلاف کا یہ آغاز تھا۔ جس پر سدھو نے سونیا اور راہول گاندھی تک اپنے تحفظات پہنچائے۔ اِدھر امریندر سنگھ نے تنقید سے بچنے کے لیے سدھو کی وزارت تبدیل کی لیکن سدھو نے چارج سنبھالے بغیر استعفیٰ دے دیا۔ بہرحال اس تمام عرصے میں سدھو نے بھارتی پنجاب کی سیاست میں ایسا اہم کردار ادا کیاکہ کانگریس ہائی کمان نے انہیں ریاستی صدر کی بھاری ذمے داری دے دی، سدھو نے انتہائی ذہانت اور سیاسی تدبر کے ساتھ کئی ایسے اقدامات کیے، جن کی وجہ سے پارٹی کے اندر اُن کی مقبولیت کا گراف امریندر سنگھ کے مقابلے میں زیادہ بڑھا۔
یہی وجہ ہے کہ اب امریندر سنگھ کے مستعفی ہونے کے بعد سدھو کو وزیراعلیٰ بنانے میں کسی کو کوئی دقت یا تحفظات نہیں ہوں گے۔ دوسری جانب شکست خوردہ امریندر سنگھ اب کھلم کھلا یہ کہہ رہے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے کسی کو بھی ان کا یہ عہدہ مل جائے لیکن سدھو کو وزیراعلیٰ نہیں بننے دوں گا۔سابق وزیراعلیٰ اس ضمن میں انتہائی کمزور دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ سدھو، پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دوست ہیں، دیگر انتہا پسند بھارتیوں کی طرح امریندر سنگھ نے بھی پاکستان دشمنی کے کارڈ کا سہارہ لے کر سدھو پر بھونڈے اور بے بنیاد الزام لگانے شروع کردیے ہیں لیکن وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ان کے الزاموں میں کوئی دم نہیں کیونکہ ارکان کی حمایت کے بغیر وہ سدھو کو وزیراعلیٰ کی کرسی سے دور نہیں رکھ سکتے اور اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارتی پنجاب کے کانگریس کے قلعے میں سابق کرکٹر اور ٹی وی میزبان سدھو سے بہتر کوئی اور ایسا امیدوار نہیں جو امریندر سنگھ کی جگہ وزیراعلیٰ بن سکے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ریاستی اسمبلی کے ارکان سدھو پر بھرپور اعتماد کا اظہار کررہے ہیں۔
Discussion about this post