کہتے ہیں کہ بالر اور بلے باز سے زیادہ کرکٹ کے کھیل میں سب سے زیادہ پاور فل بارش ہوتی ہے، جو اگر برس پڑے تو میچ کا نتیجہ کسی وقت بھی تبدیل ہوسکتا ہے ۔ یہ بارش ہی ہوتی ہے جو شکست کے قریب کھڑی ٹیم کے لیے رحمت بن کر برستی ہے تو وہ سکھ کا سانس لے کر ڈریسنگ روم میں کا رخ کرتی ہے اور مخالف ٹیم بادلوں کو دیکھتے ہوئے بس کڑھتی ہی رہتی ہے اور بن بلائے اس مہمان کو اپنے لیے زحمت تصور کرتی ہے۔
ہاں مگر ویسٹ انڈیز میں برسنے والے بادلوں سے مہمان ہی نہیں میزبان بھی نالاں نظر آئے۔ کھیل کا ردھم جہاں عروج پر پہنچتا تو کہیں سے بادلوں کے ٹکڑے آکر میدان میں اپنا کھیل دکھانے لگتے۔
ویسٹ انڈیز کا دورہ کرنے والی پاکستانی ٹیم کے لیے یہ ٹی 20 سیریز اس اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتی تھی کہ اکتوبر میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے پہلے ان کی تیاری ہوجاتی۔ دعوے کیے گئے کہ اس سیریز میں نوجوان کھلاڑیوں کو آزما کر ان کی صلاحتیوں کی ناپ تول کی جائے گی لیکن ہاے رے پاکستانی ٹیم کی قسمت جس کے یہ ارمان رم جھم برسات میں آنسو بن کر بہہ گئے۔ ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر بارش کو بس تکتے رہے اور لگا یہی کہ جیسے ویسٹ انڈیز والوں نے ہمیں اسی بارش کو دیکھنے کے لیے بلایا ہے ۔
ویسے بدقسمتی کے بادل تو قومی ٹیم دورہ ویسٹ انڈیز میں اپنے ساتھ ہی لے کر گئی تھی ۔ وہ کچھ اس طرح پہلے پانچ میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز چار میچوں میں تبدیل ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ نے ایک ٹیسٹ میچ کم کرکے پانچ میچوں کی سیریز کرائی تھی تاکہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی اچھی خاصی تیاری ہوجائے، لیکن پھر یہ سیریز چار میچوں تک محدود ہو گئی اورماسوائے ایک میچ کے مکمل ہونے کے باقی تینوں پر تو جیسے بارش کی حکمرانی رہی۔
ذرا ظلم تو دیکھیں کہ ان 4 میچوں میں مجموعی طور پر صرف 53.1 اوورز کا ہی کھیل ہوسکا ۔ اب جہاں ویسٹ انڈین بلے باز ہاتھ کھولتے تو بارش بھی انہیں ڈھونڈ ڈھانڈ کر میدان میں آجاتی ۔ جل تھل ہوتی آؤٹ فیلڈ بتارہی ہے کہ ٹیسٹ میچوں کا بھی کچھ ایسا ہی نقشہ ہوگا ، جو 12 اگست سے شروع ہورہے ہیں ۔
Discussion about this post