اتوار کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے ایک میچ میں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں آمنے سامنے ہوں گی۔ دونوں ممالک میں کرکٹ کے شیدائی اس مقابلے کے لیے پُرجوش ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی دھواں دھار کوریج چل رہی ہے۔ میں نے سوچا کیوں نہ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے بہترین دوست اور بھارت کے لیے اس وقت ایک بڑا مسئلہ بنے ملک چین میں کرکٹ کے بارے میں کچھ بتایا جائے۔
کیا چین میں کرکٹ کھیلی جاتی ہے ؟
عوام کی بات کریں تو اُنہیں کرکٹ میں بالکل کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں نے بیجنگ میں اپنے چار سالہ قیام کے دوران کبھی کسی کو کرکٹ کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا۔ چینی جسمانی ورزش تو بہت کرتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں تیز تیز چلنا یا دوڑنا پسند ہے۔ ان کے کچھ مقامی کھیل بھی ہیں جو یہ اکثر گروہ کی صورت میں کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہیں رقص کا بھی شوق ہے۔ اکثر شام کو معمر جوڑے اپنی رہائشی عمارتوں کے باہر موسیقی لگائے رقص کر رہے ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بات کریں تو وہاں بھی کرکٹ کا نام و نشان نہیں ملتا۔ زیادہ تر طالب علم فٹ بال، بیس بال، باسکٹ بال، تیراکی، دوڑ اور دیگر کھیل کھیلتے ہیں۔ تاہم چینی شہر شنیانگ میں ایک یونیورسٹی میں طلبا کو کرکٹ کے متعلق ایک مضمون پڑھایا جا رہا ہے۔
اس مضمون کا مقصد طلبا کو کرکٹ کھیلنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ کرکٹ بے شک یہاں عوام میں ویسے مقبول نہیں ہے جیسے پاکستان یا بھارت میں تاہم چین کی اپنی کرکٹ ٹیم ہے جو بین الاقوامی سطح پر اس کی نمائندگی کرتی ہے۔ چائینیز کرکٹ اسوسی ایشن نے 2004 میں انٹرنیشنل کرکٹ ایسوسی ایشن میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کا نعرہ ”ایک بہتر کل“ ہے۔
چین میں کرکٹ مقبول کرانے کی کوشش
چین میں کرکٹ مقبول کروانے کے لیے اور بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کرنے کے لیے اس تنظیم کا پہلا کام چین کی مردوں اور خواتین کی کرکٹ ٹیمیں بنانا تھا۔ اس سلسلے میں 2008 میں کھلاڑیوں کی تلاش شروع ہوئی۔ بیجنگ، تیانجن، شنیانگ اور شنگھائی کے 25 اسکولز نے اس تلاش میں حصہ لیا۔ ابتدائی مرحلے میں 500 کھلاڑیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ ان 500 کھلاڑیوں کو کرکٹ کی ٹریننگ دی گئی۔ دوسرے مرحلے میں ان میں سے 289 کھلاڑی 2010 میں ہونے والی ایشیائی گیمز کی ٹیم کے لیے منتخب کیے گئے تھے۔ چین کی مردوں کی کرکٹ ٹیم ان گیمز میں پاکستان کے مقابل آئی تھی۔ پاکستان نے اس میچ میں ایک کھلاڑی کے نقصان پر 183 رنز بنائے تھے۔ چینی کھلاڑی مقابلے پر صرف 55 رنز ہی بنا سکے تھے۔ دوسری طرف چین کی خواتین کی کرکٹ ٹیم نے ملایشیا اور تھائی لینڈ کی ٹیموں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دونوں میچ جیت کر ٹورنامنٹ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی۔ میں نے اس بارے میں اپنے کچھ چینی دوستوں سے بات کرنا چاہی تو سب سے پہلے تو مجھے کرکٹ کی چینی سیکھنی پڑی۔ چینی زبان میں کرکٹ کو’ بان چھیو‘ کہا جاتا ہے۔
میرے دوستوں نے بتایا کہ انہیں اس کھیل کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں ہیں۔ میں نے انہیں ان کی کرکٹ ٹیم کا بتایا تو انہوں نے اس میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لی۔ میری ایک چینی دوست جن کا انگریزی نام ڈیانا ہے نے بتایا کہ چینی عوام ان کھیلوں میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جو اولمپکس میں کھیلے جاتے ہیں۔ وہ ان کھیلوں کے ماہر ہیں اور ہر سال اولمپکس میں طلائی تمغے جیتتے ہیں۔ کرکٹ اولمپکس کے کھیلوں میں شامل نہیں ہے۔ شائد اسی وجہ سے چینی عوام کی ابھی تک اس میں دلچسپی بھی نہیں ہے۔
کرکٹ کے فروغ کے لیے چینی کرکٹ ایسوسی ایشن بھی فعال
دوسری طرف چائینیز کرکٹ اسوسی ایشن ملک میں کرکٹ کے فروغ کے لیے بہت کام کر رہی ہے۔ انٹرنیشنل کرکٹ ایسوسی ایشن کے مطابق چین میں 80 ہزار کے قریب افراد کرکٹ کھیل رہے ہیں جن میں نصف تعداد خواتین کی ہے۔ چین کی آبادی کے لحاظ سے یہ بہت چھوٹا نمبر ہے۔ چین میں کرکٹ کو مقبول کروانے کے لیے پشاور زلمی کے چئیرمین جاوید آفریدی بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے رواں ماہ کے شروع میں ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ اگلے سال ہونے والے پاکستان سپر لیگ کے ساتویں سیزن میں ان کی ٹیم میں ایک چینی کھلاڑی بھی شامل ہوگا۔
As the anticipation of PSL goes onto its 7th edition, I’m announcing to include & invite 2 guest players each from China & Turkey to share the same dugout with @PeshawarZalmi. We aim to promote & support cricket at every possible level for their best exposure in cricket world. pic.twitter.com/hTespplGdZ
— Javed Afridi (@JAfridi10) October 8, 2021
یاد رہے اس سے پہلے بھی چینی کھلاڑی پی ایس ایل کے تیسرے سیزن میں ان کی ٹیم کے لیے کرکٹ کھیل چکے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ آیا کرکٹ آنے والے برسوں میں چینیوں کا دل جیت پائے گی یا نہیں۔اس وقت اس حوالے سے کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ تاہم، چینیوں کی لگن اور محنتی طبعیت دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ اس بارے میں سنجیدہ ہو گئے تو پھر کرکٹ ان کی ہی ہو کر رہ جائے گی۔
Discussion about this post